شیبا کوثر
ایک زمانہ وہ بھی تھا جب کوئی محترم شخص کچھ بولتا تھا تو سننے والا انکی کہی باتوں کو اپنی شخصیت میں اتارنے کی بھر پور کوشش کرتا تھا وہ شخصیت چاہے اس کے والدین ہوں ،یا خاندان کے کوئی بزرگ ہوں ،استاد ہوں یا کوئی مذہبی یا سیاسی شخصیت ہوں ۔ہمیں خود اپنا بچپن یاد ہے کہ جب ہم لوگوں کو اسکول کوئی استاد کچھ بتاتے تھے یا کسی کام سے روکتے تھے تو اس کام سے رک جایا کرتے تھے مگر آج کے حالات شاید بالکل بدل چکے ہیں جس کی خاص وجہ گفتار و کردار میں واضح فرق ہے۔ ایک استاد جو درس کلاس میں دیتے ہیں اور بچوں کو بتاتے ہیں تو بچہ استاد کی باتوں کو سچ مان کر اس پر یقین کر لیتا ہے مگر جب عملی میدان میں وہ اس کے بر خلاف دیکھتا ہے تو اس کے ذہن میں سوالات جنم لیتے ہیں اور اکثر وہ اپنے والدین سے اس کے بارے میں شکوک کو دور کرنے کی کوشش کر تا ہے ۔اکثر گھروں میں ایسے واقع سے دوچارہونا پڑتا ہے خاص کر جہاں کم عمر کے بچے ہوتے ہیں وہ بلا جھجھک اس طرح کے سوالات اپنے والدین سے کر بیٹھتے ہیں ۔
اب سوال یہ ہوتا ہے کہ یہ تضاد کیوں ؟ آخر اس کی وجہ کیا ہے؟ وجہ ہمارے خیال سے یہ ہے کہ ہر کوئی ایک بڑی بیماری میں مبتلا ہے اور وہ بڑی بیماری ہے مادہ پرستی، جو پورے معاشرے کو بیمار بنا دیتی ہے جس کی تمام ظاہری و باطنی شکلیں موجود ہیں۔خاص طور سے مادیت جب دلوں میں سرا یت کر جاتی ہے اور مال و دولت اور اعزاز و مفادات کی پر شتش پر مجبور کر دیتی ہے تو نہایت خطر ناک ثابت ہوتی ہے اس بیماری نے انسانیت کو ہر شعبہ میں اضطراب اور بےچینی کا وارث بنا دیا ہے ،ہر دل میں بغض و عداوت کے بیج ڈال دیتے ہیں اور غیر مختم تباہ کن جنگوں کا سلسلہ شروع کر دیا ہے اس کے باوجود لوگ اس کی خطر ناکیوں کی طرف دھیان نہیں دیتے اور اگر کچھ دھیان دیتے بھی ہیں تو اس سے گلو خلاصی کی ہمّت نہیں کر پاتے ۔
مادیت پرستی کی وجہ کر ہی ہر انسان خود غرض ہو گیا ہے سچ سے کوئی مطلب نہیں بلکہ اس کی وجہ سے کئی بار دوسروں کی نظروں میں اس کی شخصیت بھی مجر و ح ہو کر رہ جاتی ہے ۔کل تک اس کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا اور اس کی زندگی کسی کے لئے آئید ل تھی وہ ایک پل میں بدل جاتی ہے اور آگے والا یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ اس کی شخصیت وہ تو نہیں جو وہ سمجھتا تھا بلکہ یہ بھی کسی معمولی انسان کی طرح مفاد پرست طبیعت کا مالک ہے پھر اس کی شخصیت کا جا دو اس کے سر سے اتر جاتا ہے اور اس کے کہے گئے الفاظ اپنے معنی کھو دیتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ آخر اس مرض کا علاج کیوں کر ہو ،اس کی کیا سبیل کی جائے کہ انسان کے اندر انسانیت ترقی کرنے لگے اور انسان کی معنو ی زندگی کا عروج ہو ۔کیا کوئی ایسا طریقہ ہے جس سے غفلت کی دبیز چادر کو ہٹا یا جا سکے تاکہ انسان کا دل سچ پر آمادہ ہو ،ہر انسان انسانیت کو اپنا پیمانہ بنانے لگے اور ایسا معلوم ہو کہ سچ کا روشن پہلو وہی ہے جو تمام انسانیت کے لئے ایک نعمت ہے ۔
واضح لفظوں میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ کیا کوئی ایسا راستہ ہے جس پر چل کر انسانیت اپنے دور طفیلیت سے ترقی کر کے دور تجربہ وآزما ئش اور دور عقل فہم میں داخل ہو سکے ؟
جی ہاں اگر ہم تھوڑا سا ٹھہر کر سوچیں اور اپنے اندر کی آواز کو سننے کی کوشش کریں اور ساتھ ساتھ عقل و فہم کے گھوڑے دوڑ ا ئیں تو معلوم ہوگا اس کا علاج موجود ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم خارجی حرکات کا مشاہدہ کرنے کے ساتھ اپنے اندرون کا بھی بغور جائزہ لیتے رہیں اور باطنی آنکھ کو بیدار اور با ہوش رکھیں اور اند رونی وجود کو ہوشیار اور چوکس رکھیں ۔اگر ہم اپنے اس باطن کو بیدار کر دیں اور باطن کو ظاہر اور ظاہر کو باطن سے ملا دیں تو ہم نے گویا مقصد ِوجود کو پا لیا اور اپنے قلب کو سکون دینے میں کامیاب ہو گئے ۔جو زندگی کے لئے بہت ضروری اور اہم ہے ۔اس کے بغیر ہم دولت کا انبار تو لگا سکتے ہیں لیکن حقیقی زندگی سے لطف اندوز نہیں ہو سکتے ۔
یہی وجہ ہے کہ آج دنیا کی بڑی بڑی شخصیت جسے عام انسان ایک کامیاب ترین انسان سمجھتا ہے وہ بھی اندر سے ٹوٹا ہوا اور بکھرا ہوا نظر آتا ہے اور کبھی کبھی ایسی خبریں ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کر دیتی ہیں کہ بھلا ایسا کامیاب انسان بھی صحیح مانوں میں زندگی کے سکھ اور چین سے کتنا دور ہے ۔اس لئے ضروری ہے کہ ہم اپنے قول و فعل کے تضاد سے بچیں جو کہیں اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں زبان سے جو کچھ بولیں سوچ سمجھ کر بولیں اور جو بولیں اس کو اپنے کردار میں شامل کرنے کی کوشش کریں ورنہ ہماری شخصیت کا کوئی وزن باقی نہ رہ پائےگا اور ہم دوسروں کے تشنہ لبی کا بھی آسانی سے نشانہ بنتے رہیں گے ۔
یہ ایک بڑی سماجی بیماری ہے اسی بیماری کی وجہ کر آج کا معاشرہ کرب میں مبتلا ہے کوئی کسی کی باتوں پر یقین کرنے کو آمادہ نہیں ہے ہر کوئی شکو ک کے دائرے میں ہے کیوں کہ لوگ ایک دوسرے کے کردار پر نظر رکھتے ہیں اور اس کی فکر میں رہتے ہیں کہ اس کی اصل زندگی میں کیا ہے کہیں یہ اپنی زبان دراز ی سے ہمیں بے وقو ف تو نہیں بنا رہا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ جب اصل زندگی سامنے آتی ہے تو اس کا شک یقین میں بدل جاتا ہے۔نتیجہ یہ ہے کہ کوئی کسی کی بات کو اس وقت تک تسلیم نہیں کرتا جب تک مشاہد ہ نہیں کر لیتا جو سچ مچ ایک کٹھن کام ہے ۔
اگر ہمیں صحیح مانوں میں ایک بہتر معاشرہ کی تعمیر کرنی ہے جو سکون و ترقی کیلئے بیحد ضروری ہے تو ہمیں ہر حال میں اس بات کی کوشش کرنی ہی پڑے گی کہ جو بات بھی ہم زبان سے کہ رہے ہیں خود بھی اس پر عمل پیرا ہوں ورنہ سماج کو انتشار سے بچانا ممکن نہیں جس کے زد میں ہر خاص و عام آرہا ہے ۔
آج ہر شخص ایک عجیب کیفیت میں مبتلا ہے زندگی سے چین و سکون غارت ہو گیا ہے ذہنی انتشار کی وجہ کر آج معاشرے میں طرح طرح کی جسمانی بیماری اور ذہنی دباؤ کا لوگ شکار ہو رہے ہیں ،خاندانی نظام بکھراوُ کا شکار ہے ہمدردی اور محبّت جیسی چیزیں عنقاء ہو کر رہ گئ ہیں۔ والدین تنہائی کے شکار ہو رہے ہیں بچے محبّت کیلئے ترس رہے ہیں گویا قیامت کا منظر ہے ۔
اس لئے ضروری یہ ہے کہ ہر شخص اپنا محا سبہ کرے ،اور صرف گفتار کا غازی نہ بنتا پھرے بلکہ ساتھ ساتھ عملی کردار بھی پیش کرنے کی کوشش کرے ورنہ بہتر یہی ہے کہ چپ چاپ اپنی دنیا میں مگن رہے ۔کیونکہ آپ کے بولنے کا سماج پر کوئی اثر نہیں ہونے والا آپ اپنی ڈفلی بجا تے رہئے گا اور لوگ اپنے دھندے میں لگے رہیں گے ۔
کریں نصیب سے شکوہ کہ موسموں سے گلہ
بدل کے راستہ ابر بہار جاتا ہے
sheebakausar35@gmail.com