انجمن اسلام‘ کے جوائنٹ سکریٹری معین الحق چودھری انتقال کر گئے
ممبئی9۔ اپریل(ندیم صدیقی) شہر کی ممتاز شخصیت، سماجی اور تعلیمی شعبے میں ، انجمن اسلام کے جوائنٹ سکریٹری اور کریمی لائبریری کی تجدید میں عملاً پیش پیش رہنے والے( 85 سالہ) معین الحق چودھری صدیقی آج دوپہریہاں انتقال کر گئے وہ ایک طویل مدت سے ذیابیطس کے مریض تھے جو آخر جان لیوا ثابت ہوا۔
ان کے قریبی اعزہ کی اطلاع کے مطابق معین الحق چودھری1936 میں الہ آباد کے موضع شہزاد پور میں عبد الحق چودھری کے گھر پیدا ہوئے تھے۔ انھیں الہ آباد کے مدرسہ سبحانیہ میں داخل کیا گیا اور الہ آباد ہی سے انہوں نے ہائی اسکول کیا اور پھر اپنے والد کے ساتھ ممبئی آگئے بعدہٗ ان کومشہور سینٹ زیوئرس کالج میں داخل کیا گیا جہاں ان کے خاص مضامین میں عربی اور فارسی جیسی بلیغ زبانیں شامل تھیں۔ ان کے والد عبد الحق چودھری چونکہ تعلیم کی اہمیت سے واقف تھے تو انہوں نے اپنے فرزند ِاکبر معین الحق چودھری کو اعلیٰ تعلیم کے لیے مصر کی جامعہ القاہرہ بھیج دِیا۔
ایک غیر مصدقہ اطلاع یہ بھی ہے کہ معین الحق چودھری نے مصر سے لَوٹنے کے بعد کچھ مدت شہر کے ایک تعلیمی ادارے میں درس و تدریس کی خدمات بھی انجام دیں۔
بعدہٗ انہوں نے اپنے والد کےکاروبار میں ہاتھ بٹانا شروع کر دیا اور کپڑے کی چھپائی میں انہوں نے اپنے ہم پیشہ لوگوں سےسبقت حاصل کی اور کپڑے کی چھپائی وغیرہ کے کام کو انہوں نے جدید مشینوں سے جو ڑ دیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان کا یہ آبائی کاروبار خوب خوب ترقی کرتا گیا اور اپنے ہم وطنوں اور ہم پیشہ لوگوں میں انہوں نے ایک ممتاز مقام حاصل کر لیا، گوریگاؤں میں کپڑے کی پرنٹنگ کا کارخانہ جلد ہی ایک مِل کی سی حیثیت اختیار کر گیا۔
معین الحق چودھری کے خمیر میںابتدا ہی سے علم دوستی تھی جس کے سبب انھیں اپنے ہم عمروں میں ایک امتیازی تشخص بھی ملا چونکہ وہ اُردو ،فارسی اور عربی کے طالب علم رہے تو انہوں نےUPIA کے نام سے ایک ادارہ بنایا تھا جس میں اُردو، پرشین، اسلامک اسٹیڈیز اور عربی کے اکثر طلبا شامل تھے اور معین الحق چودھری اس ادارے کے زیر اہتمام گاہے گاہے اجلاس بھی کرتے رہتے تھے۔
عروس البلاد ممبئی کے دورِ گزشتہ میں سماجی اور علمی میدان میں جو اشخاص اپنے اخلاص کے سبب ممتاز رہے ہیں ان میں سید محمد زیدی،پروفیسر محی رضا اور معین الحق چودھری کا مثلث پرانے لوگوں کے ذہن میں اب بھی یاد گار ہے۔ ان کے تعلق سے یہ بات بھی مشہور ہے کہ جب مصر کے قائد جمال عبد الناصر یہاں آئے تھے تو ان کی تقریر کا ترجمہ معین الحق چودھری ہی کر رہے تھے۔
مرحوم چودھری کے ایک قریبی عزیز اشفاق احمد صدیقی نے بتایا کہ وہ علم دوست اور اہل علم و ادب کے قدر داں تھے، ممبئی کے ممتاز تعلیمی ادارے انجمن اسلام سے ان کی وابستگی اس امر کا مظہر ہے۔ وہ انجمن کے جوائنٹ سیکریٹری رہے اور ان کی علم دوستی کا ایک مثالی عمل انجمن کی قدیم ’کریمی لائبریری‘ کی تجدید بھی ہے جس کا سہرا اُنہیں کے سَر بندھتا ہے۔ انجمن اسلام کا اندھیری میں نسواں کالج معین الحق چودھری کی والدہ جمیلہ بیگم سے موسوم ہے۔ جسکے قیام میں ان کی اعانت بھی ایک ریکارڈ ہے۔ ممبئی کی سماجی اورسیاسی شخصیات ان سے واقف ہی نہیں بلکہ ایک تعلقِ خاطر بھی رکھتی تھیں مگر معین الحق چودھری نے زمانے کے عام رویے سے اجتناب کرتے ہوئے اس تعلق سے کسی قسم کاکوئی سیاسی فائدہ نہیں اُٹھایا۔ راقم کی ان سے ذاتی نسبت رہی ہے لہٰذا پورے وثوق کے ساتھ یہ عرض ہے کہ اِن تمام تعلقات کے باوجودوہ کسی لیڈر کسی وزیر سے کسی قسم کی سیاسی غرض کےطالب نہیں رہے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ اس کا تصور بھی ان کی فطرت میں نہیں تھا۔ ممبئی میں معین الحق چودھری نام و نمود سے بے نیاز خدمت کرنے والوں میں ایک امتیازی تشخص کے حامل تھے۔ ان کے پسماندگان میں بیوہ اور تین بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں۔ آج ہی ان کے جسدِ خاکی کو بڑا قبرستان (نزد میرین لائن) میں سپردِ لحد کیا گیا۔