مرزا کوکب قدر
واجد علی شاہ کو بر بنائے عقیدت ہی اودھ کا آخری تاجدار لکھا جاتا ہے اور یہ بھی اسی عقیدت کا کرشمہ ہے کہ ذمہ دار اہل قلم نواب آصف الدولہ کی مقبولیت کو بھی نہیں بھولے۔ ان کی مملکت کے ساتھ ان کا لقب ’’نواب ‘‘بھی واجد علی شاہ کو تفویض ہوا اور اس نکتے پر مطلق غور نہیں کیاگیا کہ اگر مرزا محمد واجد شاہ نواب تھے توشاہ لکھنے کے کیا معنی؟ اور اگر شاہ تھے تو نواب لکھنے سے کیا حاصل ؟ ہمیں ایسے عقیدت شعار افراد سے قطعی کوئی تعرض نہیں لیکن جب ایسے افراد کے نزدیک یہ غلط نہیں کہ ’’نواب واجد علی شاہ ‘‘ اودھ کے آخری تاجدار تھے تو مولوی نجم الغنی خاں رامپوری کے اس بیان کو تسلیم کرلینے میں کیا عذر کہ اودھ والوں میں سے نہ کسی کی نکسیر پھوٹی ، نہ ہلدی لگی، نہ پھٹکری اور ملک آبائی چپ چپاتے انگریزوں کے قبضے میں چلا گیا۔
واجد علی شاہ کو اودھ کا آخری تاجدار کہنا درحقیقت تاریخ کے صحیح تناظر سے چشم پوشی کرنا اور طنز و تعریض کے ایسے پہلو فراہم کرنا ہےکہ تہورّ اور مردانگی کے شیدائی شرم سے آب آب ہو جائیں۔ نجم الغنی خاں نے اپنا بیان اس خفت کو مٹانے کیلئےانشاء کیاتھا جو شجاع الدولہ کے روہیل کھنڈ فتح کرلینے پر روہلیہ پٹھانوں کے حصے میں آئی تھی۔ روہیل کھنڈ کے معرکے (۱۱۸۸ھ) میں صرف حافظ رحمت خاں نے اپنے چند فدائیوں کے ساتھ آگ اگلتی توپ کے سامنے اپنے آپ کو یہ سمجھ کر ڈال دیاتھا کہ جب عزت سے جینا دشوار ہو تو بہادروں کی طرح جان دے دینا آسان ہے۔
روہیلہ تذکرہ نگار اپنے طنز سے یہ ظاہر کرنا چاہتاہے کہ شجاح الدولہ کے اخلاف میں کوئی حافظ رحمت خاں بھی نہ تھا جو جان پر کھیل جاتا۔ وہ یہ بھول گیا کہ ۵۷ء کے معرکوں میں اودھ کے چپے چپے پر سورج بنسی راجپوتوں کی اولاد اور سلاطین اودھ کے موروثی جاں نثاروں نے شجاعت کی روایات کو پروان چڑھایا اور اودھ کی لفظی وجہ تسمیہ ’’اودھ ‘‘ ’’غیر مفتوح‘‘کونئی آبرو بخشی۔ واجد علی شاہ کے فرزند برجیس قدر کی ذات و حیات میں مذکورہ بالا دونوں بیانوں کی تردید موجود ہے اور یہ مقالہ اسی لئے سپرد قلم ہے کہ جو شبہات اس سلسلے میں پیدا ہو سکتے ہیں ان کا انسداد ہو جائے۔
برجیس قدر کی تاجپوشی اور تاجداری حقیقت تھی یا افسانہ اس کی چھان بین کیلئے تاریخی شواہد کا لحاظ اور آئین سیاست سے استنباط ضروری ہے کیونکہ یہی وہ کسوٹی ہے جو بے بنیاد اور بے ثبات دعوئوں اور ٹھوس حقیقتوں میں امتیاز پیدا کرتی ہے۔
آئین سیاست کا پہلا اصول اس امر کی تحقیق ہے کہ مدعی جس حق کا ْطلب گار ہے وہ اس تک پہنچتا بھی ہے یا نہیں۔ انگریز اس نکتے سے بخوبی واقف تھے اور شاہان اودھ اور سلاطین مغلیہ کی اولاد میں ایسے بزرگ افراد کو جو مدعی بنائے جا سکتے تھے پہلے ہی بیلی گارد میں محصور کرلیاتھا۔ انہیں اس کا قطعی اندازہ نہ تھا کہ جس رزم آرائی سے واجد علی شاہ کے مختلف البطن بھائی دارا سطوت یہ کہہ کر منھ پھیر لیں گے کہ جب شجاع الدولہ انگریزوں کا مقابلہ نہ کرسکے تو مجھ سے کیا ہوگا۔ اسی جرأت آزما منصب کو ایک فرض شناس شہزادہ اپنی وطن پرست مستقل مزاج ماں کی سرپرستی میں برضا و رغبت قبول کرے گا اور اپنی تمام زندگی جدوجہد کی نذر کردے گا ؎
دام ہر موج میں ہے حلقہ صدکام نہنگ
دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پر گہرے ہونے تک
کارخانہ قدرت میں ایسے بلند اقبال افراد کی نشاندہی دنیا میں قدم رکھتے ہی شروع ہو جاتی ہے۔ برجیس قدر پیدا ہوئے تو توپوں کی سلامی نے ساکنان اودھ کو خبردار کیا اور ختنہ کی تقریب پر نذرانے کے اٹھارہ لاکھ روپئے انہیں باشندگان اودھ کا پہلا خراج عقیدت تھا جو اس شہزادے کے حصے میں آیا۔ یہ شہنائیاں یہ چراغاں اس سے پہلے کبھی نہ ہوا تھا کیونکہ جو بچے برجیس قدرسے پہلے پیداہوئے وہ اس زمانے کی یادگار تھےجب مرزا محمد واجد علی ولی عہد نہ تھے اور جب ولی عہد کے محل میں چراغ روشن ہوا تو خود دادا نے نام تجویز کیا۔ باپ نے ذکرکیا تو صرف اسی نومولود کے نام کے ساتھ منصب کی نشاندہی تاج بناکے کی۔ لکھنؤ کے خاص و عام اپنے اس ہونے والے تاجدار سے ناواقف نہ تھے۔ واقعی تاجپوشی سے چھ مہینے پہلے :-
’’جس وقت شہزادے کی سواری نکلی شہر کی خلقت دیکھنے بیچاری نکلی تھی۔ جو گھر سے باہر آیا جس کو سواری کا اہتمام نظر آیا رنج و الم دور ہوا بے ساختہ ہر لب سے یہ مذکور ہوا: اے پروردگار عالم و چارہ ساز بیچارگاں ، حاکموں کے حاکم ، اس در دولت ابد مدت کو قیام قیامت تک برقرار رکھنا ‘‘ ہرچند اس روز کچھ سامان سواری نہ تھا،وہ معدودے چند جو دردولت پر مقیم ہیں وہی ہمراہ تھے اور خلف ظل اللہ تھے لیکن عجیب شاہ و شوکت تھی، دیکھنے والوںکو حیرت تھی‘‘
آنے والے چند مہینوں میں برجیس قدر نے وہ سب کچھ دیکھا اور سنا ہوگا جس نے ساکنان اودھ کو انگریزوں کے خلاف صف آرا کیااور اگر برجیس قدر کے بزرگوں کی تدبر آمیز بے حسی حیرت افزا نہ تو برجیس قدر کے سرفروشانہ اقدام پر حیرت کیسی؟ انگریز نا عاقبت اندیش تھے جنہوں نے واجد علی شاہ کی کھلے عام نیابت کرنے والے کو بیلی گارد میں محصور نہیں کیا اور جب انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا تو اس دفعہ بھی وہیں نسخہ اپنایا جو اس سے پہلے وزیر علی خاں اور مرزا فریدوں(منا جان) کے موقعے پر آزما چکے تھے۔ یعنی برجیس قدر واجد علی شاہ کی اولاد ہی نہیں ہیں۔ ہمیں ا س کا مسکت جواب بھی اخبار ٹائمس (لندن ) کے نامہ نگار سر ڈبلیو ایچ رسل کی معرفت مہیا ہے:-’’ہمیں اسے (برجیس قدر کو) بادشاہ کا بیٹا تسلیم کرنے میں تکلیف محسوس ہوتاہے لیکن اودھ کے وہ تعلقہ دار اور سردار جن کو اس حقیقت کا بہتر علم ہونا چاہئے اس پر کوئی شبہ نہیں کرتے اور اس کی خاطر اپنی جانیں قربان کرنے پر ہمہ وقت تیار ہیں‘‘
آئین سیاست کا دوسرا اصول اس واقع کا تعین ہےجس سے مختلف نتائج کا استخراج کیاجاتا ہے۔ برجیس قدر عوام کے منتخب حکمراں تھے۔ اس بارے میں کوئی دو رائے نہیں ۔ اختلاف اگر ممکن ہے تو اس میں کہ وہ صوبیدارتھے مثل برہان الملک کے یا نواب وزیر مثل صفدر جنگ کے یا بادشاہ مثل غازی الدین حیدر کے ، یاکسی ایسی حیثیت کے جوان سب سے الگ ہو۔ جواب کیلئے حاکم و محکوم کے درمیان معاہدہ اہل خرد کی تشفی کا سبب بن سکتاہے۔ ۵جولائی