سید حسین افسر
تحریکیں اسی وقت جنم لیتی ہیں جب سماج یا اسکے ذمہ دار انپے لوگوں کو انصاف نہیں دے پاتے۔تحریکوں کے مختلف طریقے، جداگانہ انداز اور دلچسپ مرحلے ہوتے ہیں۔اپنی بات رکھنے اور اپنے مسائل کو بھرپور طریقے سے پیش کرنے کاجو ’جنون‘سر پر چڑھتا ہے وہ ہزاروں سال کے حکمرانوں اور ’باطل کے خداوں‘ کو بالاخر عدل و انصاف کی آندھی میں اڑا دیتاہے۔ دنیا تحریکوں اور جد و جہد کی تاریخوں سے بھری پڑی ہے۔مغرب و مشرق کی سر زمینوں سے اٹھی انقلاب کی آندھیاں شہنشاہوں اور حکمرانوں کو ایسے لے اڑیں جیسے ایک معمولی پتہ ہوا کے جھونکے سے نا معلوم کہاں اڑ جائے۔تحریکں اگر عورتوں کے ہاتھ میں ہو تو اسکا ’ٹھسہ‘ ہی نرالا ہوتا۔گلابی ساڑی کا گینگ،نیلی ساڑی کی سینا اور رنگ و نمود کے مختلف گروپ،گینگ،دستے،جرگوں کا سلسلہ لا متناہی ہے۔
امن اور اہنسا کے اس ملک میں گلابی ساڑی میں ملبوس عورتوں کے اس گینگ کو بھلے ہی قانون نہ تسلیم کرے،لیکن سماج کا ایک طبقہ اس’ زنانی فوج‘ کا مشکور بھی ہے جس نے ظلم و زیادتی کے خلاف کھڑے ہوکر وہ کام انجام دیا جو مردنہیں کر سکے۔ رحم مادر میں لڑکی کے قتل کا معاملہ ہو،شوہر کا بیوی پر تشدد ہو یا پھر صنف نازک کا کوئی دوسرا مسئلہ ہو،گلابی سینا متحرک ہوجاتی ہے۔انکے ہاتھوں میں ڈنڈے ہوتے ہیں اور وہ ایک ڈسپلن غول کی شکل میں وہاں کا رخ کرتی ہیں جہاں انکو اپنے طریقے کے عدل و انصاف سے معاملات نمٹنا ہوں۔
ہندستان میں آزادی حاصل کرنے کی جد و جہد کے شاندار ماضی کا اگر مشاہدہ اور مطالعہ کیا جائے تو یہ نتیجہ با آسانی بر آمد کیا جاسکتا ہے کہ خود کو سینہ سپر کرنے اور ایک عدد آزادی کی سانس لینے ،ایک گھونٹ اپنا پانی پینے کی تگ و دو نے کیا کیا گُل نہیں کھلائے۔ پہاڑوں کی سر سبز چوٹیوں اور ریگستان کے سنگ لاخ صحرا سبھی جگہ آزادی کے متوالوں نے ظلم و جبر سے دو دو ہاتھ کرنے کی جو قسمیں کھائی تھیں وہ بھلے ہی اس وقت
کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوئیں مگر سعی مسلسل نے انکو سنہرے دور میں بہر حال داخل کردیا۔ ہندستان کی آزادی حاصل کرنے کی جنگ اور انگریزوں کی اجارہ داری کو ختم کرنے کی جد و جہد میں ایسی انگنت تحریکوں نے جنم لیا جو خفیہ تھیںمگر حیرت انگیز اور طور پر انکو مقبولیت حاصل ہوئی۔یہ ضرور ہے کہ ان تحریکوں میں سے چند نے ا بتدا میں ہی دم توڑ دیا ۔”آزادی حاصل کرنے کی دھن میں ہندوستان کے علماءنے انگریزوں کی غلامی سے نجات حاصل کرنے کے لئے کئی تحریکیں چلائیں جن میں ایک روٹی تحریک بھی تھی جس کے ذریعے ایک مخصوص وقت پر پورے ملک میں انگریزوں کے خلاف بغاوت کی جانی تھی۔ یہ روٹی جس پر پیغام درج تھا گاو ¿ں گاو ¿ں شہر شہر پھرتی رہی اوربالآخر سی آئی ڈی اور پولیس کے ہتھے چڑھ گئی۔ چنانچہ اس ”بغاوت یا سازش“ کا قلع قمع کر دیا گیا۔ علماءکی انگریزوں سے نجات حاصل کرنے کی آخری منظم کوشش ریشمی رومال کی تحریک تھی جس نے 1916ءمیں زیر زمیں جنم لیا۔ اس کے سرپرست اور آغاز کرنے والے شیخ الہند مولانا محمود الحسن تھے جنہوں نے انگریزوں کو ہندوستان سے نکالنے کے لئے مولانا عبید اللہ سندھی کو کابل بھیجا جہاں سے مولانا سندھی نے ترکی حکومت سے نہ صرف رابطہ بلکہ سمجھوتہ بھی کر لیا کہ وہ بلوچستان کے راستے ہندوستان پر حملہ آور ہوں گے اور ایک منظم انداز سے اسی وقت پورا ملک انگریزوں کے خلاف اٹھ کھڑا ہو گا جس کے لئے پہلے سے باقاعدہ تیاری کی جائے گی۔
اس ضمن میں بعض ہندو اور سکھ لیڈروں کی بھی ہمدردیاں حاصل کر لی گئی تھیں اور کابل میں باقاعدہ ایک ہیڈ کوارٹر قائم کر دیا گیا تھا۔ مولانا عبید اللہ سندھی نے کابل میں جرمن سفارت خانے کے ذریعے جرمنی حکومت کی بھی ہمدردی حاصل کر لی تھی اور روس کی حکومت سے بھی رابطے قائم کر لئے تھے۔ بالآخر حکومت کو اس سازش کا پتہ چل گیا اور مولانا محمود الحسن کو سزا کے طور پر مالٹا کے جزیرے میں قید کر دیا گیا۔ ہندوستان بھر میں بے شمار لوگ گرفتار ہوئے۔ اس چھوٹے سے ویران جزیرے کو چاروں طرف سے کالے پانی کے سمندر نے گھیر رکھا ہے چنانچہ یہاں سے نکلنے کا کوئی راستہ ہی نہیں۔ ریشمی رومال جس پر نہ صرف ترکوں سے معاہدے کا ذکر تھا بلکہ نقشہ بھی دیا گیا تھا کئی ہاتھوں سے نکلتے نکلتے انگریز حکمرانوں کے پاس پہنچ گیا۔ اس سازش کا بھانڈا پھوٹنے اور ٹوٹنے کے بعد علماءنے اپنی حکمت عملی بدل لی اور بزور بازو آزادی حاصل کرنے کی بجائے سیاسی جماعتوں اور تحریکوں کے ذریعے آزادی کے حصول کی حکمت عملی اپنا لی۔
“آزاد ہندستان میں بھی ’داخلی آزادی‘ عدل و انصاف کی بازیابی کے لئے وقتا فوقتا ± تحر یکیں جنم لیتی ہیں۔ بعض تحریکوں کی کمان عورتوں کے ہاتھوں میں ہوتی ہے اور وہ اس جد و جہد کو کامیابی سے جاری رکھتی ہیں جس کا خاکہ تیار کیا جاچکا ہوتا ہے۔پہاڑوں میں شروع کی گئی ۴۸۹۱ءکی منشیات کے خلاف تحریک جس میں مطالبہ کیا گیا تھا ”نشہ نہیں روزگار دو“۔عورتیں اپنے شوہروںسے پریشان تھیں جو کام دھام کے بجائے بے روزگاری کے عالم میں نشہ میں دُھت رہتے۔ انہی عورتوںنے پہاڑ کی سرکار کے خلاف مورچہ بندی کی اور کسی حد تک کامیابی سے زیادہ انکی جد و جہد کو کامیابی ملی۔گزشتہ کئی سال سے بندیل کھنڈ کے خطے میں جانباز عورتوں نے سرکاری و غیرسرکاری جبر و استبداد سے مقابلے کے لئے گلابی ساڑی گےنگ قائم کیا ہے۔ گلابی ساڑی میں ملبوس عورتوں کے ہاتھوں میں ڈنڈے ہوتے ہیں اور وہ سرکاری اہلکاروں سے ایمانداری اور انصاف کی پہلے تو فریاد کرتی ہیں مگر ناکامی کی صورت میں ڈھیٹ ملازمین کو یا تو تھپڑ رسید کردیتیں یا ڈنڈوں سے مارتی ہیں۔یہ کہانی بھی ظلم و جبر سے شروع ہوتی ہے۔گلابی ساڑی زیب تن کئے ہوئے بندیل کھنڈ کی سرزمین سے اٹھ کھڑی ہوئیں یہ عورتیں سرکاری اہلکاروں کے لئے سوہان روح بن چکی ہیں۔
ایک دن کچھ لوگوں نے اپنی بہو کو مارنے پیٹنے کے بعد گھر سے باہر نکال دیا۔سمپت پال کو برداشت نہیں ہوا اور اسی طرح کے مسائل کو سن کر اور دلخراش مناظر کے بعد انہوں نے گلابی سینا کھڑی کردی۔در اصل یہ کہانی اس وقت سے شروع ہوتی ہے جب سمپت پال خود بارہ سال کی تھی اور اسکی شادی چتر کوٹ کے ایک گاوں کے منی لال سے کردی گئی۔سمپت کمسنی کے عالم میں جب سسرال پہنچی تو وہاں آئے دن اس کو مظالم کے مناظردےکھنے کا سامنا کرنا ہوتا۔آخر کار جب پانی سر سے اونچا ہوگیا اور سمپت نے دیکھا کہ واقعات بڑھتے ہی جا رہے ہیں تو ایک مسئلہ میں اس نے اپنی پانچ سہلیوں کے ساتھ لاٹھی لیکر گھر کی اس بہو کو اسکا حق دلایا۔اس واقعہ کے بعد جہاں جہاں ظلم ہوتا وہاں یہ گروپ عورتوں کی مدد کے لئے سینہ سپر ہوتا۔سمپت کا ڈر گاو ں میں بیٹھنے لگا اور اس سے نمٹنے لے لئے اس پر برادری نے حقہ پانی بند کردیا۔ گیا۔اسلئے دوسرے قصبہ میں میاں بیوی نے چائے کی دکان کھولی۔
سمپت نے حالات کا جائزہ لیتے ہوئے یہ فیصلہ کیا کہ ان واقعات سے نمٹنا اآسان نہیں ہے۔اس نے مزید عورتوں کو منظم کرنے کی کوشش شروع کردی۔ سماج سے لڑنے اور مظلوم کو اسکا حق ملے سمپت کا صرف یہی ایجنڈا تھا۔ پہلی بار چندے کی رقم سے سو سو روپئے میں کانپور سے گلابی ساڑیاں خرید ی گئیں اور گلابی گینگ وجود میں آیا۔گلابی گےنگ کی مقبولیت میں روز افزوں اضافہ ہونے لگا اور گینگ باندہ کی سرحد پار کر کے پورے بندیل کھنڈ میں پھیلنا شروع ہوگیا۔گزشتہ مئی میں اتر پردیش کے ڈی جی پی نے گلابی گینگ کو نکسلیوں کا ہی ایک روپ قرار دیا لیکن زبردست مخالفت کے بعد انکو اپنابیان واپس لینا پڑا۔ سمپت پال کا یہ “ انقلاب“ دور دور تک پھیلنے لگا ۔سمپت پال اور انکے گلابی گےنگ کی شہرت سے متاثر ہوکر نیلی سینا بھی وجود میں آئی لیکن اس کو زیادہ شہرت اور مقبولیت حاصل نہیں ہو سکی۔ کانپور کے گھاٹم پور کے بیہٹوا گاوں کی گھونگھٹ والی عورتوں نے اپنے ہاتھوں میں لاٹھیاں تھام لیں اور جوئے و شراب کے خلاف ایک زوردار مہم چھیڑ دی۔انکا پہلا نشانہ جوئے گھر اور شراب خانے تھے۔کیونکہ مردوں کی انہی دونوں لتوں کی وجہ سے عورتیں ظلم و تشدد کا شکار ہوتی ہیں۔یہ نیلی سینا تھی جس نے قرب و جوار کے علاقوں کی عورتوں کو منظم کرنے کی ناکام کوشش کی۔
اتر پردیش کا سب سے پچھڑا علاقہ بندیل کھنڈ ددوا ڈاکو کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔یہاں کے الیکشن میں بغیر ددوا کی مرضی کے نہ تو ایم ایل اے جیت سکتا تھا اور نہ ہی ایم پی وہ مارا گیا اسکی جگہ ٹھوکیا نے لے لی تھی ٹھوکیا کے مظالم کی بھی طویل داستان ہے۔لیکن اسی جگہ سے گلابی سینا نے علم بغاوت بلند کیا۔باندہ کی یہ عورتیں گلابی ساڑی میں ملبوس اور ہاتھوں میں لاٹھیاں و ڈنڈے اٹھائے ہوئے ظلم و جور کے خلاف ایک پار دار آواز بن چکی ہیں۔سرکاری مشینری کے نکممے پن، رشوت خوری اور اہلکاروں کے بے ہودہ رویے کے خلاف اب یہ “جنگ“ تیز ہوگئی ہے۔سو سے زیادہ عورتیوں کی گلابی سینا کی کمانڈر سمپت پال سخت گیر مزاج کی حامل ہیں اور انکی موجودگی سے پولیس سے لیکر سرکاری افسران تک چوکنا ہوجاتے ہیں۔
پچاس سالہ سمپت پال کے کارہائے نمایاں کی طویل فہرست ہے۔شہرت اس وقت ہاتھ لگی جب راشن کے گیہوں سے بھرے ہوئے تین ٹریکٹروں کو باہر نکلتے روک لیا اور اس جرم کے لئے ہول سیلر کی جم کر “مرمت“ کی گئی۔پولیس کی زیادتیوں اور سرکاری اہلکاروں کی رشوت خوری کے خلاف یہ عورتیں سماج کے مجرموں کو لاٹھی،تھپروں اور چپلوں سے مارتی ہیں۔باندہ کی پولیس گلابی گینگ سے کانپتی ہے۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ گلابی گینگ کسی بھی سیاسی پارٹی سے وابستہ نہیں ہے۔حالانکہ متعدد سیاسی پارٹیوں نے اس گروپ سے مفاہمت کی بہت کوشش کی مگر ناکامی ہاتھ لگی
۔گلابی گینگ کی کمانڈر سمپت پال کا فرانس میں بھی زوردار استقبال کیا گیا ور ان پر ریسرچ بھی کی جا رہی ہے۔ بالی ووڈنے اس موضوع پر فلم بنانے کا بھی اعلان کیا ہے۔سمپت پال پر کتابیں لکھی جا چکی ہیں اور وہ اپنے اس’ انقلاب ‘ کو دور دور تک پھیلانے کی کوشش کر رہی ہیں۔