شارق علوی
پگڈنڈی پر ایک گھوڑسوار بیٹر کی طرف جارہاتھا اس کے کندھے پر بارہ بور کی بندوق تھی اوردوسرے پرکارتوسوں کی پیٹی، سوارکی پیٹھ اورگھوڑے کے ہلتی ہوئی بالوں والی دم کو بنجارہ سنگھ کچھ دیرتک رہا پھر اس میں شرارت پھڑکنے لگی اپنی لاٹھی کومضبوط سے پکڑکر وہ اسی طرف دبے پاؤں چلنے لگا۔
’صاحب! اسے چیتا سمجھئے یاتیندوہ، ہمارا نیتاتھا بہادر اس نے لمبے لمبے ڈگ مارے اورپیچھے سے پاس پہنچ کرلاٹھی سے ایساحملہ کیاکہ گھوڑے والاڈھلک کر نیچے اوربنجاراسنگھ اس کے اوپر، تھوڑی سی دیر میں بندوق اورکارتوس اس کے قبضے میں،لاٹھی کے حملے سے گھوڑسوارکا سرپھٹ گیا اوربھیجا باہر نکل پڑا،
بھلاچیتا کبھی اپنے شکارکو زندہ چھوڑتا ہےْ‘ بنجاراسنگھ کے ایک ساتھی کی آنکھوں میں یہ کہتے کہتے چمک آگئی’بندوق دغی۔ دوردورتک آواز گونج گئی گھوڑ سوار ہمیشہ کے لئے ٹھنڈا ہوگیا، بنجاراسنگھ گھوڑے پر چڑھ کرمونچھوں پرتاؤ دیتا ہوا بندوق لٹکاکر نکل گیا، جدھر اس کی نظرجاتی زمین اس کے پیروں کے نیچے تھی وہ اس خطہ ارض کابادشاہ بن بیٹھا دوردورتک پھیلی اس کی حکومت ،کہئے کے ساتھ ہمارا بنجارہ سنگھ؟
آپ بھی صاحب کس سے جابھڑے؟ آپ کو توبہادروں کی حفاظت کرنی چاہئے‘مجھے وہ سمجھانے لگا۔
بنجارہ سنگھ نے ڈاکوؤں کاایک گروہ بنالیامگراس کاہر ممبر ہمت والا، چست اور پولیس کا دشمن اوران سے نفرت کرنے والاتھا۔ وہ سب اچھے نشانہ باز تھے مالداروں پر ظلم ڈھانا اپنے لوٹ مارکے کام میں بے مروتی سے کام لینا یہ ان کے اصول تھے کبھی کسی بے سہارہ بیوہ کی مالی مددوہ اس لئے کرتے کہ عوام ان کو مخیراورغریبوں کاساتھی سمجھیں کسی کی جوان لڑکی شادی میں میں مدد، کبھی کسی، کوپڑھائی کے لئے وظیفہ دے دینا یہ سب اسی پروگرام کے تحت ہوتا رہتا ،لیکن درحقیقت اس گروہ کا جبروظلم اپنی حدوں سے تجاوز کرنے لگا ایسے بھی واقعات ہوئے کہ جہاں ڈاکہ ڈالتے وقت اس گروہ نے بوڑھے باپ کے سامنے اس کے نوجوان لڑ کے کوگولی ماردی اور تجوری کی چابیاں زبردستی چھین کر بوڑھے کوبھی ٹھنڈا کردیا۔
ایک متمول بنیاخاندان کے لوگ اپنے گاؤں میں لڑ کی کی شادی کرنےآئے تھے ان کاکلکتہ میں اچھا کاروبار تھا بنجارا سنگھ کے گروہ نے ان کے گھر رات میں ڈاکہ ڈالا مال لوٹا اوردوجوان بھائیوں کوگولی سے ماردیا میں پولیس انسپکٹر کے ساتھ اس ڈکیتی کا موقع دیکھنے جیپ میں جارہاتھا۔
’اس کا کچھ نہ کچھ توتدارک کرناپڑے گا‘ میں نے جواب دیا اورپھرہم دونوں اس گروہ کوختم کرنے کے لئے پروگرام بنانے اور مستقبل کے منصوبوں پر باتیں کرنے لگے۔
جب ہم گاؤں کے نزدیک پہنچے، ہم نے کچے مکانوں کے بیچ میں تین پکے سہ منزلہ مکان دیکھے، وہ مکان قریب قریب تھے اورتین بھائیوں کے تھے۔ سب سے بڑابھائی گاؤں میں رہتا کھیتی کرتا اورلین دین بھی ،دوبھائی کلکتہ میں تجارت کرتے تھے ایک ہفتے بعد بڑے بھائی کی لڑکی کی بارات آنے والی تھی، دولہن کے باپ نے روتے بلکتے بتایا ’بارات کی جگہ بنجارا سنگھ کا گروہ آگیا، بدمعاشوں نے میرے دونوں بھائیوں کی انگلیوں پرکپڑا باندھ کر مٹی کاتیل چھڑک کے آگ لگادی جب وہ چیخنے چلانے لگے تو بنجارہ سنگھ نے حکم دیا کہ ان روتے ہوئے کتوں کو خاموش کردیاجائے دورائفل بندوں نے انکو گولی ماردی، ان کو قتل کردیاگیا، میں بچ گیا اب آپ میری مدد کیجئے‘کہتے کہتے وہ رونے لگا۔
گاؤں والوں نے بتایا کہ ڈاکوؤں کاگروہ اندھیری رات میں آیا کچھ بندوق بندڈاکومکان کی چھت پڑ چڑھ کرچاروں طرف سے نگرانی کرنے لگے وہ گولیاں چلاتے اور لوگوں کودورہنے کے لئے آگاہی دیتے گاؤں بھر میں ایک کہرام سامچ گیاڈرکےمارے لوگ پاس نہیں آئے، ڈاکتو تجوری میں سے لگ بھگ ساٹھ ہزارروپئے کادھن لے گئے۔
بنجاراسنگھ میں تشدد کاجذبہ سرایت کرتاگیا اوراس کی خودداری کوٹھیس پہنچانے والے واقعات اس کے اندر بدلہ لینے کا جذبہ اورمضبوط کرتے رہے اپنے دشمنوں کوصفحہ ہستی سے مٹادینے کی اس نے قسم کھارکھی تھی ان کے گرم خون سے اپنی خودداری اورعزت کووہ سینچتا۔ اس کوساہوکارکی چھڑی کی ماریاد آئی پھر کیاتھا، برسوں سے دباغصہ بھڑک اٹھا، ایک رات اس نے اپنے گروہ کے ساتھ ساہوکارکی حویلی پرحملہ بول دیا اس کی ساری پونچی لوٹ لی۔
’لالہ زیادہ سودلینے کایہی نتیجہ ہوتا ہے کہ اصل اورسوددونوں ہی چلے جاتے ہیں‘۔بنجاراسنگھ کے یہ الفاظ سن کر ساہوکار تھرتھر کانپنے لگا اس کی پتلی ٹانگیں اس کے بھاری پیٹ کابوجھ نہیں سنبھال سکیں وہ لد سے نیچے بیٹھ گیا اورہاتھ جوڑنے لگا۔
’تیرے انہیں ہاتھوں نے مجھ پر چھڑی چلائی تھی تیری یہ ہمت تجھے معلوم نہیں تھا کہ تونے کس پر حملہ کیا اوراس کا کیانتیجہ ہوگا۔‘بنجارہ گرجا، لالہ گڑگڑانے لگاتب ہی بنجارہ نے اشارہ کیا پل بھر میں اس کے ایک تگڑے ساتھی نے تیز تلوار کے وارسے ساہوکار کے دونوں ہاتھ کلائیوں سے کاٹ گرائے بانہوں کے ٹھونٹھ رہ گئے جن میں سے خون کے فوارے چھوٹ گئے ساہوکار چیخنے بلکنے لگا۔
’اس پوں، پوں کرنے والے کتے کو ٹھنڈا کرو‘ دوسرا حکم جاری ہوا، دھائیں دھائیں بندوق سے دوگولیاں دغیں ساہوکار خون سے لتھ پتھ اوندھے منہ مردہ پڑاتھا، گروہ لوٹ ماکر اندھیرے جنگل کے راستوں سے نکل گیا۔
تحصیل باہ میں بٹیشورایک مشہور تیرتھ گاہ ہے جاڑوں میں کارتک مہینے میں پورن ماسی کے موقع پر بٹیشور میں بڑا اجتماع ہوتا اور میلہ لگتا، دکانیں لگتیں جانوروںکی خرید فروخت ہوتی، پولیس کے دستے آگرہ سے بھیجے جاتے اور افسران تمبو لگاکر میلے کے انتظام کے لئے کئی دن تک رہتے میں بھی ٹبیشور کے میلے میں اپنے کیمپ میں تھا کچھ مخبروںسے مجھے یہ اطلاع ملی کہ ڈاکوؤں کا ایک گروہ یاتومیلے کے دنوں میں یامیلے کے اختتام پرکسی گاؤں میں کسی مالدار آدمی کے یہاں ڈکیتی ڈالے گا یہ خبر ادھوری تھی لیکن پھر بھی کافی تھی کبھی میلے کے انتظام میںدھیان لگاتا تو کبھی ڈاکوؤں کوختم کرنے کاجذبہ بھڑک اٹھتا، اگرکہیں پوری پوری خبر مل سکے توبات کچھ بنے مخبروں کوسمجھایا ان کو صحیح خبرلانے کے طریقے بتائے اور احکامات دیئےاوراحکامات دئے پھر بھی جوخبر ملتی وہ اڑتی اڑتی سی تھی۔
بٹیشور کامیلہ ختم ہوگیاتھا ،دکانیں اکھڑنے لگیں، خیمے گرائے جانے لگے شام کو خبر ملی کہ بٹیشور سے پانچ میل کی دوری پرایک گاؤں میں رات کوڈاکہ ڈالاجائے گا گروہ گاؤں کے پاس ایک باغ میں اکٹھا ہوگا فوراً ہی میں نے پولیس کے افسران اورکمانڈروں کواکٹھا کر کے میٹنگ کی، پورامنصوبہ تیارہوااس کے ہرہ پہلو پرغورکیاگیا اوریہ طے ہوا کہ دن چھپتے چھپتے پوری تیاری کے ساتھ بندوقوں اور کارتوسوں سے سب سپاہیوں کو لیس کر پولیس فورس ٹرکس میںآگرہ کی طرف روانہ ہوگاجس سے جنتا کو یہ اندازہ ہوکہ میلہ ختم ہونے پر پولیس بھی واپس جارہی ہے پھر راستے میں پولیس کی ٹکڑیاں ٹرکوں سے اترکر پیدل مارچ کریں چمڑے کے بوٹ کی جگہ کر مچ کے جوتے پہنیں،بغیر کسی شورغل کے مقررہ مقام پرپہنچ جائیں اور وہاں سے لکتے چھپتے لیٹ کر رینگتے ہوئے اس باغ کاگھیرڈا لیں جس میں ڈاکوؤں کے جمع ہونے کی خبر تھی یہ سب کا م رات کے ساڑھے نوبجے تک پوراہوجاناتھا، کوئی بھی سپاہی اورکمانڈرکسی طرح کی بھی آہٹ نہیں کرے گا اوربیٹری سگریٹ نہیں پئے گا،سب پیڑوں کی جھاڑیوں کی،مینڈوں اورگڈھوں کی آڑلئے دبکے پڑے رہیں گے اوراشارے کا انتطارکریں گے۔
میںرائفل بندپولیس کے جوانوں کی ایک ٹولی کے ساتھ پاس کے باغیچے کی پکی چہاردیواری کی آڑ لے کر انتظار کرنے لگا، ہمارے پاس گرینڈ فائر کرنے والی رائفلیں بھی تھیں چاروں طرف اندھیراگھپ تھا ہمارے کان اوردماغ کی حس اتنی بڑھی ہوئی تھی کہ تھوڑی سی آہٹ پاتے ہی ہم چوکنا ہوجاتے اورآنکھیں اندھیرے کو چیر کردورتک دیکھنے کی کوشش کرتے،ذرااپنی ناکامیابی اورگھنے ادھیرے کی وجہ سے میں ذرادیر کے لئے آنکھیں بندکرلیتا ہم سب کی دماغی کشمکش ہماری جسمانی حرکتوں کوایک پتلے پتلے ننھے دھاگے میں باندھے تھیںکبھی بھی وہ دھاگہ ٹوٹ سکتا تھا اورہم آگے جھپٹ سکتے تھے۔
آدھی رات گذری ہوگی کی باغ میں کچھ پتیوں کی کھڑکھڑاہٹ ہوئی کچھ لوگ باغ کے وسط میں پختہ کنوئیں کی طرف جاتے ہوئے لگ رہے تھے کیونکہ پتیوں کی کھڑا کھڑاہٹ ادھر ہی ہونے لگی تھی اچانک مشر کی سمت سے کچھ لوگوں نےللکارا اور بندوقیں دغیں پولیس کے سپاہیوں نے بھی اسی طرف فائر کئے کمانڈر نے’ویری لائٹ پستوں‘ داغٰ اس کی روشنی میں کچھ ڈاکوکوئیں کی طرف بھاگتے نظرآئے کچھ باغ سے باہر بھاگنے لگے،’ویری لائٹ پستول‘ کاداغنا ہی حملہ بول دینے کا اشارہ تھا،پولیس کے جوانوں نے تڑاتڑارائفلیں چلانا شروع کردیں باغ کے باہر بھاگتے ہوئے کچھ ڈاکوؤں کومارگرایاگیا، پھرکوئیں کی طرف سے فائر کی ہوئی گولیاں سنسناتی پاس سے نکل جاتیں، ڈاکوبھی پولیس پر گولیوں کی بوچھارچھوڑتے،’پولیس کے کتوں بھاگ جاؤ نہیں تو مارے جاؤگے‘وہ چلاتے گالیاں اورگولیاں دونوں ہی کی بھرپور مارتھی۔
رات بھر گولیاں چلتی رہیں ہم لوگوں نے ڈاکوؤں کے گروہ کوکوئیں کے پاس ہی گھیر رکھاتھا باغ کے چاروں طرف پولیس کاگھیرا مضبوط تھا، ہرراستے پر ہرپگڈنڈی پر ہمارے لوگ تھے ڈاکو شکنجے میںپھنسے تھے۔
پوپھٹنے لگی توصور ت حال کااندازہ ہواباغ کے وسط میںکوئیں سے ملحق ایک پکا کمرہ تھااس کمرے میں پچھم کی طرف ایک دروازہ تھا اوردکھن کی طرف ایک کھڑکی کمرے کی چھت پرپھوس کاڈھیر تھا ، رات میں اسی پھوس کی آڑسے گروہ کانیتا اپنے کام کاڈائر کشن دیتا رہا اورپولیس کوگالیاں دیتارہا دن نکلتے ہی گروہ کے باقی ماندہ لوگ کمرے میں گھس کر ہم پر حملہ آورہوتے رہے، پولیس کے دستے دھیرے دھیرے شمال کی جانب کوئیں کی طرف کھسک رہے تھے، پچھم کی طرف سے دروازے میں سے ایک دم سے ہمارے اوپرکئی فائر ہوئے ہم سب دیوار کے نیچے چھپ گئے میرے رائفل سیکشن کے جوان فائر کرنے کے لئے بیتاب ہورہے تھے۔
میں نے ان جو شیلے جوانوں کوروکانہیں وہ تو رائفل کارتوسوں سے بھری سب مگیزین فائر کرکے خالی کرڈالتے۔پھر گرینڈ کی رائفل کی والے کوحکم دیاکہ وہ گرینڈ کمرے کی چھت پر بھوس کے ڈھیر پر فائر کرے۔ وہ گرینڈ نشانے پر نہیں گرا دوسرا گرینڈ فائر کیاگیا اس بارنشانہ ٹھیک رہا، پھوس کےدھیر میں آگ لگ گئی اورآگ کی لپٹیں کمرے کے دروازے اورکھڑ کی میں سے اندر لپکنے لگیں شاید کمرےکی چھت اورکمرہ بہت گرم ہوگیا تھا تب ہی تو ڈاکوگولی چلاتے ہوئے تیزی سے باہر بھاگے۔ تڑتڑتڑ،پولیس کی رائفلوں کی گولیاں ادھر ہی تڑتڑانے لگیں، پانچ ڈاکو گرکرگڑی مڑی ہوکررہ گئے چھٹواں ڈاکو کچھ دوربھاگا پھر گولی لگنے سے لڑکھڑا کرگرگیا،باغ میں کنوئیں پر اور کنوے کے نزدیک والے کمرے میں خاموشی چھاگئی، گولیوں کی تڑتڑکے بعد یہ کیسی موت کی سی خاموشی تھی۔
ہم لوگوں نے چھان بین کی، اس گھمسان کے مقابلے میں ڈاکوؤں کاسردار بجاراسنگھ اپنے ساتھیوں کے ساتھ کام آیا، ان سب کے جسم رائفل کی گولیوں سے چھلنی ہوچکے تھے،پولیس فورس میں ایک حولدار اوردوسپاہیوں کی جان گئی۔
ہم لوگ شام تک باہ پہنچے وہاں سے آگرےکو چلنے کی تیاری کرہی رہے تھے کہ اسی وقت بنجارہ سنگھ کی بڑی بہن وہاں آپہنچی اس نے اپنے بھائی کے مردہ جسم کو دیکھنے پراسرار کیا اوراس کی کلائی میں اس نے لال رنگ کاریشم کاایک دھاگہ باندھ دیا۔ اس کے ماتھے پر تلک لگادیا پھر وہ بلکنے لگی’یہ میرے بھائی کے ہاتھ آخری رکشا بندھن ہے‘ اس کی آنکھوں سے بڑے بڑے آنسو بہہ نکلے، ایک لمبی سانس کھینچ کر وہ روندھے گلے سے بولی’میرے بھائی کی لاش جلاکر راکھ چنبل ندی میں بہادینا نہ معلوم کتنے بہادر میرے بھائی کی طرح اس گھاٹی میں جنم لیں گے۔٭ ٭ ٭
حت