افغان صدر اشرف غنی ملک چھوڑنے کے تاجکستان پہنچ گئے ہیں جبکہ افغان صدر کے دفتر کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ہم اشرف غنی کی لوکیش بتانے سے قاصر ہیں، افغان حکومت کے 10اہم ترین رہنما بھی اسلام آباد پہنچ گئے ہیں ، جہاں افغانستان کے نمائندہ خصوصی محمد صادق نے سیاسی وفد کا استقبال کیا۔
طالبان نے پورے امارت اسلامیہ افغانستان کا کنٹرول سنبھال لیا ہے، کابل میں قبضہ کرنے سے پہلے افغان حکومت سے مذاکرات کے ذریعے معاملات طے کیے گئے،جس میں افغان حکومت نے اقتدار چھوڑنے کا فیصلہ کیا،عبوری حکومت کو اقتدار کی متنقلی پرامن ماحول میں دینے کی یقین دہانی کرائی گئی۔
طالبان کا کہنا ہے کہ افغان فورسز کے ارکان کو گھر جانے کی اجازت ہے، غیر ملکی بھی اپنی خواہش پر افغانستان چھوڑ سکتے ہیں،تمام مخالفین کو عام معافی دینے کا اعلان کیا ہے،ہم افغانستان میں خواتین کے حقوق کا احترام کریں گے۔
خیال رہے کہ افغانستان کے تمام باڈرز کا کنٹرول طالبان سنبھال چکے ہیں اور طالبان نے بھی تمام لوگوں کے جان ومال کی حفاظت کی یقین دہانی کرائی ہے اور عام معافی کا اعلان بھی کیا
خبررساں اداروں کی رپورٹ کے مطابق اتوار کے روز کابل میں تیز ترین پیش رفتوں، خوف اور افراتفری کا ماحول رہا جس کے بعد بالآخر رات گئے بھاری ہتھیاروں سے مسلح جنگجوؤں نے خالی صدارتی محل کا کنٹرول سنبھال لیا۔
اس دوران مغربی ممالک اپنے شہریوں کو افغانستان سے نکالنے میں مصروف رہے جبکہ سیکڑوں افغان شہری بھی ملک چھوڑنے کے لیے کابل ایئر پورٹ پہنچے۔
طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان نے قطری نشریاتی ادارے الجزیرہ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ گروہ تنہائی میں نہیں رہنا چاہتے اور افغانستان کی نئی حکومت کی شکل جلد واضح ہوگی۔
ساتھ ہی محمد نعیم نے پر امن بین الاقوامی تعلقات رکھنے پر بھی زور دیا اور کہا کہ ’خدا کا شکر ہے کہ ملک میں جنگ ختم ہوچکی ہے‘۔
طالبان رہنما کا کہنا تھا کہ ’ہم جو حاصل کرنا چاہ رہے تھے اس تک پہنچ گئے جو کہ ہمارے ملک اور عوام کی آزادی ہے۔
انہوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ ہم اپنے سرزمین کو کسی کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے اور نہ ہی دوسروں کو نقصان پہنچائیں گے۔
خیال رہے کہ عسکریت پسند بلا مزاحمت جلال آباد فتح کرنے کے بعد افغانستان کے دارالحکومت میں داخل ہوگئے تھے جہاں ان کے اقتدار کی پر امن منتقلی کے لیے افغان رہنما سے بات چیت بھی ہوئی۔
امریکی ڈپارٹمنٹ آف اسٹیٹ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ کابل کے سفارتخانے سے عملے کا انخلا مکمل کرلیا گیا ہے۔
نیڈ پرائس نے ایک بیان میں کہا کہ ’ہم تصدیق کرسکتے ہیں کہ تمام سفارتی اہلکاروں کا محفوظ انخلا مکمل ہوچکا ہے، سفارت خانے کے تمام اہلکار حامد کرزئی بین الاقوامی ہوائی اڈے کے احاطے میں ہیں جسے امریکی فوج نے محفوظ بنایا ہوا ہے۔
واضح رہے کہ افغانستان میں امریکا نے 2001 میں پہلی مرتبہ طالبان حکومت کے خلاف حملے شروع کیے تھے، جو نائن الیون حملوں کا نتیجہ تھا۔
تاہم 2 دہائیوں سے جاری جنگ کے خاتمے کے لیے امریکا نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے بعد گزشتہ برس فروری کو امن معاہدہ کیا تھا جس کی رو سے غیر ملکی افواج کے انخلا اور افغان حکومت کی طالبان کے ساتھ بات چیت پر اتفاق ہوا تھا۔
افغانستان میں جاری لڑائی میں رواں برس مئی سے ڈرامائی تبدیلی آئی جب امریکا کی سربراہی میں افغانستان میں موجود غیر ملکی افواج کے انخلا کی تاریخ کا اعلان کیا گیا تھا اور رواں مہینے کے اختتام سے قبل انخلا مکمل ہوجائے گا۔
جس کے پیشِ نظر طالبان کی جانب سے پہلے اہم سرحدی علاقوں پر قبضہ کیا گیا اور پھر برق رفتاری سے صوبائی دارالحکومتوں پر قبضہ کرتے چلے گئے۔
اس دوران ایک خبر کے مطابق واشنگٹن: امریکی سیکریٹری خارجہ انٹونی بلنکن نے کہا ہے کہ امریکا افغانستان میں مستقبل کی حکومت کو صرف اس صورت میں تسلیم کرے گا جب وہ اپنے لوگوں کے بنیادی حقوق کا احترام کرے اور دہشت گردوں کو ملک سے دور رکھے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق چین طالبان کی جانب سے طالبان کو ایک جائز حکومت تسلیم کرنے کے حوالے سے میڈیا رپورٹس پر تبصرہ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ‘مستقبل کی افغان حکومت جو اپنے لوگوں کے بنیادی حقوق کو برقرار رکھے اور جو دہشت گردوں کو پناہ نہ دے، اس حکومت کے ساتھ ہم کام کر سکتے ہیں اور تسلیم کرسکتے ہیں’۔
انہوں نے کہا کہ ‘ایسی حکومت جو اپنے لوگوں کے بنیادی حقوق کو برقرار نہیں رکھے، جو امریکا اور اس کے اتحادیوں کے خلاف مذموم عزائم رکھنے والے دہشت گرد گروہوں کو پناہ دے، یقینی طور پر ایسا نہیں ہونے دیں گے’۔
اعلیٰ امریکی سفارت کار متعدد امریکی ٹیلی ویژن چینلز پر افغانستان میں ہونے والی پیش رفت پر تبصرہ کرنے کے لیے پیش ہوے جہاں طالبان نے کابل میں داخل ہو کر صدر اشرف غنی کو تاجکستان میں پناہ لینے پر مجبور کیا۔
انہوں نے خبردار کیا کہ ‘ اگر وہ بنیادی حقوق کا احترام نہیں کرتے ہیں اور دہشت گردوں کو پناہ دینا بند نہیں کرتے ہیں تو کابل میں طالبان کی زیرقیادت حکومت کو بین الاقوامی امداد نہیں ملے گی، پابندیاں نہیں ہٹائی جائیں گی اور وہ سفر نہیں کرسکیں گے’۔