بارہ بنکی : اپنے پریس کے ذریعے ھندستان کی تمام ادبی روایات میں نئی [؟][؟]جان پھونکنے والے عظیم پبلیشر منشی نول کشور سچے معنوں میں ہماری گنگا جمنی تہذیب کی علامت تھے اور انہوں نے ادب، کی زبان اور تہذیب کو جس طرح آگے بڑھاتے ہوئے پورے علمی سرمایے کو محفوظ کیا، وہ ہمارے لئے تاریخی اور بہت قیمتی ہے ۔
پریرتا ایکشن سوسائٹی کے زیر اہتمام ‘اردو زبان و ادب کا خاموش خدمتگار- منشی نول کشور’ موضوع پر کل منعقد سیمینار میں مقررین نے مذکورہ خیالات کا اظہار کیا ۔ پروفیسر شارب ردولوي نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ 1857 کے غدر کے دوران ھندستان میں جس طرح سے تباہی اور بربادی ہوئی، ان حالات میں ہندوستان کی تاریخ مٹنے کے دہانے پر پہنچ چکی تھی۔
ایسے میں منشی نول کشور نے جو ہماری گنگا جمنی تہذیب کی علامت تھے ، ایک پبلیشر کے طور پر ادب، زبان اور تہذیب کو جس طرح فروغ دیا اور جس طرح پورے علمی سرمایے کو محفوظ کیا، وہ بہت قیمتی اور تاریخی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ عام طور پر پبلشنگ ہاؤس ایک پیشے کا حصہ ہوتے ہیں، لیکن کیا منشی جی نے اسے پیشے کے طور پر ہی اپنایا، اگر اسی طرح اپنایا ہوتا تو وہ کتابوں کا اتنی بیداری سے ترجمہ نہ کراتے ۔