کراچی میں بسنے والے غیر ملکی مزدوروں کے شناختی کارڈ نہ ہونے کی وجہ سے انھیں ہر جگہ ہر ادارے میں مشکلات پیش آتی ہیں
پاکستان کے شہر کراچی میں نادرا نےغیر قانونی تارکینِ وطن افراد کو رشوت لے کرجعلی شناختی کارڈ جاری کرنے کے الزام میں اپنے تین سنٹرز بند کرنے اور ملوث اہلکاروں کے خلاف کاروائی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
غیر ملکی شہریوں کے لیے خصوصی شناختی کارڈ بنانے کی اتھارٹی نارا کے اعدادو شمار کے مطابق کراچی میں 30 سے 32 لاکھ غیر ملکی رہائش پذیر ہیں جن میں سے اکثر غیر رجسٹرڈ ہیں۔
کراچی کے علاقے مچھر یا مچھیرا کالونی میں بنگالیوں کی ایک بڑی تعداد آباد ہے۔ مچھر کالونی کے رہائشی شمس اسلام کے بڑے بیٹے تین سال پہلے بلدیہ ٹاؤن میں واقع فیکٹری علی انٹرپرائز میں آتش زدگی کے حادثے میں ہلاک ہوگئے تھے۔ بیٹے کی ہلاکت کے بعد شمس اسلام کو حکومت کی جانب سے معاصے کا جو چیک ملا وہ ایک مقامی اہلکار کی مدد سے کیش ہوسکا جبکہ عدالت سے ملنے والے چیک پڑے پڑے بیکار ہوگئے۔
شمس اسلام نے بتایا کہ ’85، 85 ہزار کے دو چیک ملے ہیں لیکن شناختی کارڈ کی مدت میعاد ختم ہونے کی وجہ سے اسے کیش نہیں کرا پایا اور اب تو چیک کیش کرانے کا وقت بھی نکل چکا ہے۔‘
کراچی میں بسنے والے غیر ملکی مزدوروں کے شناختی کارڈ نہ ہونے کی وجہ سے انھیں ہر جگہ ہر ادارے میں مشکلات پیش آتی ہیں۔
علاؤ الدین کراچی میں سنہ72-1971 سے مقیم ہیں۔ان کے بقول ایک لمبے عرصے تک انتظامیہ سے لڑ جھگڑ کر انھوں نے اپنا شناختی کارڈ بنوایا
شمس الاسلام کی طرح سانحہ بلدیہ کے چند دیگر بنگالی خاندان اپنے پیاروں کے بچھڑنے کے بعد ملنے والے امدادی چیک اب تک کیش نہیں کراپائے ہیں۔ شمس الاسلام بتاتے ہیں کہ نیا کارڈ بنانے کے لیے وہ نادرا آفس کے چکر لگاتے رہے لیکن اضافی پیسے دینے کے باوجود کوئی کام نہیں ہوا۔
’جہاں بھی جاتا ہوں وہاں آئی ڈی کارڈ مانگتے ہیں۔بنک سے بیٹے کی پنشن ملتی ہے۔ کارڈ نہ ہونے کی وجہ سے وہاں بھی مسئلہ ہوتا ہے۔ اِدھر کارڈ بنانے والے آتے ہیں لیکن سادہ کاغذ پر لکھ کر دے جاتے ہیں لیکن کارڈ بن کے نہیں آتا۔کہتے ہیں آگے سے بند ہے اور وجہ بھی نہیں بتاتے کہ آخر کیوں بند ہے۔‘
مچھر کالونی کے ایک اور رہائشی محمد علی نےنارا کارڈ نہ ہونے کی وجہ سے بنگالیوں کو درپیش مختلف مسائل کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ نارا کارڈ نہ ہونے کی صورت میں پولیس گرفتار کرلیتی ہے ۔
’مکان خریدنے جاؤ یا کرائے پر لینے جاؤ، کاروبار شروع کرنا چاہو، بچوں کو سکول میں داخلہ دلانا چاہو سب کے لیے شناختی کارڈ چاہیے۔ باہر جاؤ تو پولیس والا پکڑتا ہے، جیب میں ہو تو چھوڑ دیتا ہے۔‘
واضح رہے کہ حال ہی میں پاکستان میں قومی شناختی کارڈ بنانے کے قومی ادارے نادرا نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ اُن کے 120 اہلکاروں کے خلاف محکمانہ کارروائي کي جا رہي ہے۔ اُن پر الزام ہے کہ اُنھوں نے شدت پسندوں اور غیر ملکیوں کو جعلی قومی شناختی کارڈ جاری کيے۔
محمد علی نےنارا کارڈ نہ ہونے کی وجہ سے بنگالیوں کو درپیش مختلف مسائل کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ نادرا کارڈ نہ ہونے کی صورت میں پولیس گرفتار کرلیتی ہے
علاؤ الدین کراچی میں سنہ72-1971 سے مقیم ہیں۔ان کے بقول ایک لمبے عرصے تک انتظامیہ سے لڑ جھگڑ کے انھوں نے اپنا قومی شناختی کارڈ بنوایا تھا لیکن اب انتظامیہ نارا کارڈ بنا کر نہیں دے رہی ہے۔
’ کسی کا کارڈ برسات میں بھیگ گیا،گل گیا یا گُم ہوجاتا ہے۔ اب وہاں جاتے ہیں تو دھکے لگاتے ہیں۔ماں باپ کا شناختی ثبوت بھی ہو تو بولتے ہیں کہ بنگالی ہے، نہیں بنتا تمہارا کارڈ۔کوئی پیسہ دے تو اس کا کارڈ بن جاتا ہے۔اب غریب آدمی کما کے کھائے گا یا روپے دے کر کارڈ بنائےگا۔‘
کراچی میں بسنے والے لاکھوں غیر قانونی تارکینِ وطن افراد کو رجسٹر کرنے دوران ایک بڑا مسئلہ ان کے پاس مستند دستاویزات کا دستیاب نہ ہونا ہے۔اِن افراد میں سے اکثر کے پاس اپنے والدین کے شناختی کارڈ موجود نہیں ہیں اور چونکہ عموماً وہ غیر رسمی شعبوں سے وابستہ ہیں اسی لیے ان کے پاس اپنے کام سے متعلق دستاویزات بھی موجود نہیں ہوتیں۔
اس مسئلے کا نادرا کے پاس کیا حل ہے؟ کیا نادرا نے ایسے غیر ملکی افراد کی شناختی دستاویزات کے لیےکوئی متبادل لائحہ عمل بنایا ہے؟ اس سلسلے میں نادرا سے رابطہ کیا گیا لیکن اصرار کے باوجود انھوں نے اس معاملے پر بات کرنے سے معذرت کرلی۔