مغربی بنگال کی انتخابی جنگ کو دیکھ کر جانے کیوں ہندی شاعرہ سبھدرا کماری چوہان کی انقلابی اور ولولہ انگیز نظم ’خوب لڑی مردانی وہ تو جھانسی والی
رانی تھی‘ کی یاد آگئی۔ یہ نظم ہم نے درجہ چھ میں پرھی تھی۔ ہم لوگوں کو یہ بہت پسند تھی۔ اسے خوب گایا کرتے تھے۔ اس وقت نظم کے کئی بند یاد تھے لیکن اب صرف دو ہی مصرعے یاد ہیں۔ یعنی ’بندیلے ہر بولوں کے منہ ہم نے سنی کہانی
سہیل انجم
تھی۔ خوب لڑی مردانی وہ تو جھانسی والی رانی تھی‘۔ آج کے مغربی بنگال کے انتخابی ماحول میں جب ایک طرف ترنمول کانگریس کی صدر اور مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی تن تنہا کھڑی ہیں اور ان کے مقابلے میں حکومت، بی جے پی، آر ایس ایس، گودی میڈیا اور سوشل میڈیا پر سرگرم زرخرید یوزرس یا صارفین کی پوری فوج موجود ہے تو اس نظم کا یاد آنا فطری ہے۔ قارئین سوال کر سکتے ہیں کہ جھانسی کی رانی نے تو انگریزوں کے خلاف جنگ لڑی تھی ممتا تو انگریزوں کے خلاف نہیں بلکہ اپنے ہی ملک کی ایک سیاسی پارٹی کے خلاف لڑ رہی ہیں تو پھر ان کا موازنہ جھانسی کی رانی سے کیسے کیا جا سکتا ہے۔ اس سوال کا یہی جواب ہو سکتا ہے کہ ممتا کے بالمقابل کھڑی جماعت کی پالیسیاں بھی تقریباً وہی ہیں جو انگریزوں کی تھیں۔ یہ فوج بھی انگریزوں کی مانند ’بانٹو اور راج کرو‘ کی پالیسی اپنائے ہوئے ہے۔ یوں تو اس حکومت کے کارپردازان دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ غریبوں، کمزوروں اور کسانوں کی حکومت ہے لیکن یہ بات اب کسی سے پوشیدہ نہیں رہ گئی ہے کہ یہ غریب عوام کی نہیں بلکہ امیر کارپوریٹ کی حکومت ہے۔ صنعت کاروں کی حکومت ہے۔ تاجروں اور بزنس مینوں کی حکومت ہے۔ انگریز بھی تاجر کی حیثیت سے آئے تھے اور ہندوستانیوں کو ایسٹ انڈیا کمپنی کے توسط سے بزنس کرنے کرنے کے نام پر دھوکہ دیا تھا۔
مغربی بنگال میں اس ایک خاتون کو ہرانے کے لیے اس قدر افواج اتار دی گئی ہیں کہ اللہ کی پناہ۔ اگر کوئی دوسرا ہوتا تو وہ میدان چھوڑ کر بھاگ گیا ہوتا۔ بی
جے پی کی جانب سے ایسا کوئی حربہ نہیں چھوڑا جا رہا ہے جس سے ریاست کے ووٹروں کو تقسیم کیا جا سکے اور ممتا کو سیا طور پر قلاش بنایا جا سکے۔ اس ملک میں بی جے پی اور آر ایس ایس جیسی تنظیموں کا مقابلہ کرنے کے لیے یا تو لالو یادو نے کمر کسی تھی یا پھر ممتا بنرجی نے۔ لالو کو تو کال کوٹھری میں پہنچا دیا گیا ہے جہاں ان کی صحت ان کا ساتھ چھوڑ رہی ہے۔ اگر ممتا ہار گئیں تو ان کے ساتھ بھی وہی سلوک ہو سکتا ہے جو لالو یاد کے ساتھ کیا گیا۔ ممتا کو کمزور کرنے کے لیے پہلے ان کے سپہ سالار شبھیندو ادھیکاری اور دوسروں کو توڑا گیا اور اس کے بعد دوسرے حربے اختیار کیے گئے۔ ممتا نے شبھیندو کی ’غداری‘ پر انھیں سبق سکھانے کی ٹھانی اور ان کے حلقے نندی گرام سے خود الیکشن لڑنے کا اعلان کر دیا۔ نندی گرام کی ایک تاریخ رہی ہے۔ ممتا نے وہیں پر کسانوں کے کھیتوں کو صنعت کاروں سے بچانے کے لیے جنگ لڑی تھی۔ اب وہ وہاں اپنی سیاسی زمین بچانے کے لیے لڑ رہی ہیں۔ نندی گرام سے ان کے لڑنے کا اعلان ایک طرف جہاں شبھیندو کو سبق سکھانا اور ان کی سیاسی طاقت کو کمزور کرنا ہے وہیں بی جے پی کو چیلنج دینا بھی ہے۔ بی جے پی اس چیلنج سے بوکھلا گئی اور اس نے وہاں پوری طاقت جھونک دی۔ یکم اپریل کو جب نندی گرام میں ووٹ پڑ رہے تھے تو ایک پولنگ اسٹیشن پر ہنگامہ ہوا اور ممتا بنرجی کسی کمانڈر کی مانند وہاں پہنچ گئیں۔ انھوں نے الیکشن کمیشن سے شکایت کی کہ ان کے لوگوں کو ووٹ ڈالنے نہیں دیا جا رہا ہے۔ لیکن کمیشن نے ان کی شکایت مسترد کر دی۔ اس کے باوجود ممتا نے ہمت نہیں ہاری ہے۔
بی جے پی کی جانب سے جہاں آلاتِ حرب و ضرب کے ساتھ جنگ لڑی جا رہی ہے وہیں نفسیاتی سطح پر بھی یہ جنگ جاری ہے۔ بی جے پی نے یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ ممتا دیدی چناو ¿ ہار رہی ہیں۔ وزیر اعظم نریندر مودی اور امت شاہ سے لے کر پرکاش جاڈیکر اور دوسرے لیڈروں تک سب یہی راگ الاپنے لگے ہیں۔ دراصل اس کے پیچھے اپنی شکست خوردگی کو چھپانا اور بی جے پی کے ووٹروں کے حوصلے بلند رکھنا ہے۔ وزیر اعظم نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ایسی افواہ ہے کہ ممتا دیدی کسی اور حلقے سے لڑنے جا رہی ہیں۔ اس پر ممتا نے کہا کہ وہ پہلے امت شاہ کو کنٹرول کریں اس کے بعد کوئی بات کریں۔ وہ ان کی پارٹی میں نہیں ہیں کہ وہ انھیں ہدایت دیں۔ ویسے وہ الیکشن جیت رہی ہیں۔ لیکن ان کا صحیح جواب ترنمول کانگریس کی تیز طرار رکن پارلیمنٹ مہووا موئترا نے دیا۔ انھوں نے مودی جی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہاں ممتا بنرجی کسی اور حلقے سے بھی لڑنے جا رہی ہیں اور وہ حلقہ ہے بنارس کا۔ ذرا آپ جائیے اپنے بنارس کو سنبھالیے۔ وزیر اعظم اپنی اکثر و بیشتر تقریروں میں ممتا بنرجی کو ’دیدی او دیدی‘ کہہ کر مخاطب کرتے ہیں۔ وہ کبھی ان پر طنز کرتے ہیں تو کبھی ان کا مضحکہ اڑاتے ہیں۔ انتخابی تقریروں کے دوران وزیر اعظم جتنی سطحی زبان استعمال کرتے ہیں اتنی عام تقریروں میں نہیں کرتے۔ وہ اپنے حریفوں کی تذلیل کرتے ہیں۔ وہ اس اصول کو فراموش کر دیتے ہیں کہ اپنے بہادر حریفوں کا بھی احترام کیا جانا چاہیے۔ جب سکندر نے پورس کو شکست دی اور اسے گرفتار کر لیا تو اس سے اس نے پوچھا کہ بتاو ¿ تمھارے ساتھ کیا سلوک کیا جائے تو پورس نے بڑا تاریخ جملہ کہا تھا۔ اس نے کہا کہ وہی جو ایک بادشاہ کو دوسرے بادشاہ کے ساتھ کرنا چاہیے۔ اور سکندر نے ا س کے ساتھ واقعی بادشاہوں جیسا سلوک کیا۔ لیکن اب حکمرانی کے انداز بدل گئے ہیں۔ سیاست میں بڑی گراوٹ آگئی ہے۔ ہندوستان کی سیاست تو چند برسوں میں بڑی نچلی سطح پر پہنچ گئی ہے۔ اس کا سہرا بلا شبہ بی جے پی کے سر جاتا ہے۔ بہرحال ایک بار پھر انھیں مہووا موئترا نے جواب دیا۔ انھوں نے ایک نیوز چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے نریندر مودی کے ’دیدی او دیدی‘ کے جواب میں کہا کہ ’بنگال میں کچھ لوگ ہوتے ہیں جنھیں ’روکیر چھیلے‘ کہا جاتا ہے۔ جس کا مطلب ہوتا ہے کہ وہ لڑکے جو سڑک کنارے بیٹھ کر آتی جاتی ہر عورت کو دیدی او دیدی کہہ کر پکارتے ہیں۔ مودی جی بھی وہی کر رہے ہیں‘۔ لیکن جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ وزیر اعظم پر چھینٹا کشی کا الزام لگا رہی ہیں تو انھوں نے جھٹ سے کہا کہ اس کو کوئی اور مفہوم نہ پہنایا جائے لیکن کیا سننے میں یہ ویسا ہی نہیں لگتا۔ بقول ان کے ’وزیر اعظم ایک وزیر اعلیٰ کے لیے گھٹیا زبان کا استعمال کر رہے ہیں‘۔ بہرحال اب نندی گرام میں ووٹ پڑ چکے ہیں لہٰذا جنگ کا میدان دوسرے اطراف میں کھسک گیا ہے۔ نندی گرام میں شبھیندو کو اپنی شکست کا اندازہ ہے۔ اسی لیے انھوں نے مذہب کی بنیاد پر ووٹروں کو بانٹنے کی کوشش کی۔ انھوں نے وہی حربہ اپنایا جو بی جے پی کے رہنما اپناتے ہیں۔ انھوں نے لوگوں کو ڈراتے ہوئے کہا کہ اگر بیگم ممتا جیت گئیں تو بنگال منی پاکستان بن جائے گا۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ انھوں نے ممتا کو خالہ اور پھوپھی کہہ کر بھی یہ جتانے کی کوشش کی کہ ممتا مسلمانوں کی ہمدرد ہیں ہندووں کی نہیں۔ ان پر یہ الزام تو پہلے سے ہی لگ رہا ہے کہ ممتا کو جے شری رام کے نعرے سے بیر ہے اور وہ ہندووں کو ان کے دیوی دیوتاو ¿ں کی پوجا کرنے کی اجازت نہیں دے رہی ہیں۔ جب انھوں نے مسلمانوں اور ہندووں کو شب برات اور ہولی کی مبارکباد دی تو کہا گیا کہ ممتا نے پہلے عید مبارک کہا اس کے بعد ہولی مبارک کہا۔ گویا اس طرح بھی ہندووں کو ان سے برگشتہ کرنے کی کوشش کی گئی۔ بتایا جاتا ہے کہ اس کوشش کا کچھ اثر بھی ہوا ہے لیکن عام طور پر سیاسی مبصروں کا خیال ہے کہ بنگال کے لوگ مذہب کی بنیاد پر بٹنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ویسے بی جے پی دوسری ریاستوں میں بھی دھرم کا استعمال پہلے کی مانند کر رہی ہے۔ وزیر اعظم مودی شمالی ریاستوں میں رام اور کرشن کے نام پر ووٹ مانگتے ہیں تو جنوب میں یعنی کیرالہ میں انھوںنے عیسائیت کا حوالہ دے کر بائیں بازو کو نشانہ بنانے کی کوشش کی۔ تمل ناڈو میں وہ وہاں کے مذہبی کھیل ’جلی کٹو‘ کے نام پر عوام کے دلوں کو جیتنا چاہتے ہیں۔ وہ اس میں کہاں تک کامیاب ہو سکیں گے یہ آنے والا وقت بتائے گا۔