امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے کہا ہے کہ ایران کی جانب سے اپنے جوہری پروگرام پر نظر رکھنے والے کیمروں کو ہٹانے کے بعد کشیدگی اور اس کی عالمی تنہائی مزید بڑھنے کا خطرہ ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے ‘اے ایف پی’ کی خبر کے مطابق انٹونی بلنکن نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ایران کے اقدامات سے 2015 کےچھ فریقی جوہری معاہدے کی ممکنہ بحالی کو خطرہ ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایران کی جانب سے اس طرح کے راستے کے انتخاب کا واحد نتیجہ نیوکلیئر بحران میں مزید اضافے اور ایران کے لیے مزید اقتصادی اور سیاسی تنہائی کی صورت میں ہو گا۔
قبل ازیں، بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) نے کہا تھا کہ تہران کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے کے لیے اقوام متحدہ کے جوہری نگران ادارے کی جانب سے استعمال کیے جانے والے 27 کیمروں کو ہٹانے سے ایک تاریخی معاہدے کو بحال کرنے کے لیے مذاکرات کو تباہ کن دھچکا لگ سکتا ہے۔
اصل معاہدہ، جوائنٹ کمپرہینسو پلان آف ایکشن (جے سی پی او اے) کے نام سے جانا جاتا ہے، جس کا مقصد ایران کو جوہری ہتھیاروں کی تیاری سے روکنا تھا۔
یہ معاہدہ 2018 اس وقت ختم ہو گیا تھا جب اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ڈرامائی طور پر اس سے علیحدگی اختیار کر کے ایران پر تیزی سے اقتصادی پابندیاں عائد کر دی تھیں۔
اس کے نتیجے میں تہران معاہدے میں طے شدہ اپنی جوہری سرگرمیوں کی حد سے تجاوز کر گیا تھا۔
جنوری 2021 میں اپنا عہدہ سنبھالنے کے بعد سے امریکی صدر جو بائیڈن نے اس معاہدے کو بحال کرنے کی کوشش کرتے ہوئے ایران پر سے پابندیاں ہٹانے کی پیشکش کی ہے اگر اس کے بدلے تہران اپنے جوہری ترقیاتی پروگرام کی حدود اور نگرانی پر رضامندی ظاہر کرے۔
انٹونی بلنکن نے کہا کہ آئی اے ای اے کے خدشات کو دور کرنے کے بجائے ایران کا ردعمل مزید جوہری اشتعال انگیزی، نگرانی اور شفافیت میں مزید کمی کی دھمکی دینا تھا۔
انہوں نے کہا کہ اس طرح کے اقدامات نقصان دہ ہوں گے اور جے سی پی او اے کے مکمل نفاذ کے لیے ہماری کوششوں کو مزید مشکل بنادیں گے