ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز۔
کیا ہندوستان پاکستان کے تعلقات خوشگوار ہوسکیں گے۔ یہ سوال دونوں ممالک کے عام شہریوں کے ذہن میں ابھر رہا ہے جبکہ اس سوال کا جواب دونوں ممالک کے سیاست دانوں کے پاس پہلے سے موجود ہے۔ عمران خان کورونا سے متاثر ہوئے تو ہندوستان کے وزیر اعظم مسٹر نریندر مودی نے اپنے ٹوئٹ کے ذریعہ ان کی جلد سے جلد صحت یابی کے لئے نیک تمناؤں کا اظہار کیا۔ پھر پاکستان کے قومی دن کے موقع پر انہوں نے عمران خان کے نام لکھے گئے ایک مکتوب میں انہیں قومی دن کی مبارکباد پیش کرتے ہوئے دہشت گردی اور دشمنی سے پاک فضا میں تعلقات کو بہتر بنانے کا ذکر کیا۔ جس کے جواب میں عمران خان نے لکھا کہ پاکستان بھی بھارت کے بشمول اپنے تمام ہمسایہ ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات چاہتا ہے۔ اور انہوں نے یہ بھی لکھا کہ پاکستان دو ہمسایہ ایٹمی ممالک کے درمیان پُرامن تعلقات چاہتا ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی لکھا کہ جنوبی ایشیا میں پائیدار امن و استحکام کے لئے ہند۔پاک کے درمیان تمام تنازعات خاص طور پر جموں و کشمیر کا حل ناگزیر ہے۔ یوں تو سفارتی حلقوں میں دونوں وزرائے اعظم کے مکتوبات کا ذکر ہے۔ یہ امید کی جارہی ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان نفرت اور دشمنی کا ماحول ختم ہوگا۔ مگر یہ ایک کڑوا سچ ہے کہ دونوں ممالک کا میڈیا ان تعلقات کے درمیان سب سے بڑی رکاوٹ بنا ہوا ہے اور آئندہ بھی رہے گا۔ ویسے ایک طرف مودی نے پاکستان کے ساتھ خوشگوار تعلقات کی خواہش کا اظہار بھی کیا مگر اپنے بنگلہ دیش کے دورے کے دوران انہوں نے بنگلہ دیش کے قیام‘ پاکستان کی تقسیم اور خود آر ایس ایس کے ایک نوجوان کارکن کی حیثیت سے بنگلہ دیش کے لئے ستیہ گرہ کرنے کا بھی دعویٰ کیا جو اس وقت موضوع بحث ہے۔ دونوں وزرائے اعظم نے اپنے اپنے طور پر ایک طرف باہمی تعلقات کا بھی ذکر کیا تو دوسری طرف ایسے الفاظ کا استعمال کیا جس سے ان کے سخت موقف کا اظہار ہوتا ہے۔ پاکستان مسئلہ کشمیر کاحل چاہتا ہے۔ عمران خان نے اس مسئلہ کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے خصوصی اجلاس کے علاوہ مختلف بین الاقوامی فورم سے اٹھایا ہے۔ دوسری طرف 5/اگست 2019ء کو مودی حکومت نے جموں و کشمیر کے خصوصی موقف کو قانون سازی کے ذریعہ ختم کردیا ہے۔ کشمیر کا مسئلہ ہندوستان اور پاکستان کی سیاسی جماعتوں کی بقاء کا مسئلہ ہے۔ تین جنگیں لڑی جانے کے باوجود اس کا کوئی حل تلاش نہیں کیا جاسکا بلکہ جب تک یہ مسئلہ باقی ہے اس کے سہارے ہندوپاک کی سیاسی جماعتیں خاص طور پر برسر اقتدار جماعتیں اپنی بنیادوں کو مستحکم رکھ سکتی ہیں۔ عمران خان کے وزیر اعظم کے عہدہ پر فائز ہونے کے بعد بہت ساری امیدیں وابستہ کی گئیں‘ جو ان کے ڈھائی سالہ اقتدار کے دوران ان کی کارکردگی کی اساس پر برقرار ہیں۔ مسٹر نریندر مودی کے لئے پاکستان سے تعلقات کو خوشگوار بنانا ایک بہت بڑا چیالنج ہے‘ کیوں کہ بی جے پی اور آر ایس ایس کی سیاست کا محور جموں و کشمیر ہی رہا ہے۔ اگر مودی اپنے ہمسایہ ملک کے ساتھ دوستی کا ماحول سازگار کرنے کے لئے پیشرفت کرتے ہیں تو ممکن ہے کہ انہیں ان کی اپنی جماعت میں مخالفت کا سامنا کرنا پڑے۔ ویسے اس وقت مسٹر مودی اس قدر مضبوط اور طاقتور ہیں کہ ان کے خلاف آواز اٹھانے کی کسی کو جرأت نہیں ہوسکتی حتیٰ کہ آر ایس ایس نے بھی بہت سے معاملات میں خاموشی اختیار کی ہے۔ چنانچہ اگر وہ پاکستان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھاتے ہیں تو مجموعی طور پر خیر مقدم ہی کیا جائے گا۔ دوسری طرف عمران خان اگرچہ کہ اپنی تعلیمی قابلیت، اپنی فراست و تدبر اور بہترین قوت فیصلہ کی بدولت دنیا کے تمام سیاست دانوں میں قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں مگر بدقسمتی سے اس ملک کے وزیر اعظم ہیں‘ جہاں ہر فرد دوسرے کے خلاف ہے۔ نریندر مودی ایک تجربہ کار سیاست دان ہیں۔ وزیر اعظم بننے سے پہلے وہ گجرات کے 14برس تک چیف منسٹر رہے۔ دونوں مرتبہ وہ بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئے۔ ان کی حکومت کو کوئی خطرہ نہیں‘ اگرچہ کہ ان کے سبھی انتخابی وعدے ادھورے ہیں۔ 2014ء سے لے کر آج تک ان کے فیصلوں سے ملک کئی بحرانوں سے گزر گیا۔ چاہے وہ نوٹ بندی ہوں یا کسان احتجاج اس کے باوجود ان کی حکومت کو کوئی خطرہ فی الحال نہیں ہے۔ نہ ہی پارٹی میں ان کی قیادت میں چیالنج کرنے کی کسی میں ہمت ہے۔
دوسری طرف عمران خان کو صرف اپنی قومی کرکٹ ٹیم کی قیادت کا تجربہ ہے۔ وزیر اعظم بننے سے پہلے 22سال تک سیاسی میدان میں جدوجہد ضرور کی۔ یقینا یہ ان کے عزائم اور عملی جدوجہد کا نتیجہ ہے کہ اپنے پہلے الیکشن میں تحریک انصاف پارٹی کوئی نشست حاصل نہ کرسکی تھی اور دوسرے الیکشن میں صرف عمران خان نے تنہا ایک نشست پر کامیابی حاصل کی تھی۔ اور 2018ء میں وہ آزاد ارکان کے ساتھ مخلوط حکومت تشکیل دینے میں کامیاب ہوئے۔ اور ان کی حکومت کے ساجھے دار وقتاً فوقتاً انہیں مختلف مسائل پر بلیک میل کرتے رہتے ہیں۔ عمران خان نے جب پاکستان کی باگ ڈور سنبھالی تو وہ قرض میں ڈوبا ہوا قلاش ملک تھا جس کا ہر شہری بال بال بیرونی قرض میں ڈوبا ہواتھا۔ یہ عمران خان ہی کی حکمت عملی اور پالیسیاں تھیں کہ انہوں نے اپنے ڈھائی سالہ اقتدار کے دوران 20ارب ڈالرس کا بیرونی قرض ادا کیا۔ ویسے مجموعی طور پر پاکستان 115 ارب ڈالرس کا مقروض ہے۔ اس کی یہ بھی بدقسمتی ہی ہے کہ وہ مسلم ممالک جو پاکستانی بیساکھیوں کے سہارے اپنے پیروں پر کھڑے رہنے کے قابل ہیں انہوں نے بار بار پاکستان کو بلیک میل کیا اور اپنا قرض واپس لے کر اس پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی۔ عمران خان کی جگہ کوئی اور ہوتا تو شاید گھٹنے ٹیک دیتا مگر انہوں نے اپنی قومی ٹیم کی کپتانی کی‘ اُسی طرح وہ اپنے ملک کی قیادت بھی کررہے ہیں۔ کورونا بحران سے مقابلہ ہو یا بیروزگاری کا خاتمہ مجموعی طور پر ان کے اقدامات کی ستائش کی جاسکتی ہے۔
ایک شاطر اور مدبر سیاست دان ہونے کی وجہ سے عمران خان نے پاکستان کی دولت پر قابض چند خاندانوں کا ناطقہ بند کرتے ہوئے ان سے پاکستان سے لوٹی ہوئی دولت کو واپس حاصل کرنے میں بڑی حد تک کامیابی حاصل کی۔ یہ ان کی انٹلیجنس ایجنسیوں کی کامیابی کی بدولت ان کی اپنی پارٹی کے کئی غدار ارکان پارلیمنٹ جنہوں نے دولت کے لئے پارٹی سے غداری کی تھی پکڑے گئے اور عمران خان ایوان میں اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ نریندر مودی کو ایسی نوبت نہ پہلے آئی اور نہ مستقبل میں کوئی امکان ہے۔ اپوزیشن بے دم بلکہ مردہ ہے۔ جن کی آواز خود ایوان پارلیمنٹ میں بھی سنائی نہیں دیتی۔ میڈیا زرخرید ہے۔ دو ممالک کے دو وزرائے اعظم کا تقابل کرنا ہی غلط ہے۔ کیوں کہ ہندوستان بہرحال دنیا کی بہت بڑی جمہوریت ہے۔ اس کے وسائل بھی زیادہ ہیں۔ اور یہ دنیا کی ترقی یافتہ ممالک کے لئے سب سے بڑی کنزیومر مارکٹ ہے۔ اس لئے اس کی اپنی آواز ہے۔ عمران خان کی قیادت میں پاکستان ایک طاقتور مسلم بلاک کے قائد ملک کے طور پر ابھرا ضرور مگر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے اسے اس کی کوشش سے باز رکھنے کے لئے دیئے ہوئے قرضے واپس لے لئے اور جانے کس قسم کی بلیک میلنگ کی گئی کہ ایک طاقتور بلاک بننے کا خواب پورا نہ ہوسکا۔ اس کے باوجود دنیا کے اہم ممالک میں جن میں امریکہ شامل ہے‘ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے کی ضرورت پر زور دیا ہے اور اُسی کا اثر ہے کہ دونوں ممالک کی جانب سے دوستی اور امن کی بات کہی جارہی ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ عمران خان نے وزیر اعظم کا جائزہ لینے کے بعد پہلی بار اپنی قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان اپنے تمام ہمسایہ ممالک بالخصوص ہندوستان کے ساتھ دوستی اور امن چاہتا ہے اگر ہندوستان ایک قدم دوستی کا آگے بڑھائے تو دہ دو قدم آگے بڑھانے کے لئے تیا رہیں۔ مودی اور عمران خان دونوں ہی کو فی الحال کوئی خطرہ نہیں ہے‘ اس لئے اگر وہ کشادہ دلی کے ساتھ باہمی تعلقات کو بہتر بنانے کی پیشرفت کریں تو یقینا دونوں ممالک کے لئے بہتر ہوگا۔ اگلے الیکشن 2023ء میں ہے۔ جب دونوں ممالک کی سیاسی جماعتوں کو ایک دوسرے کے خلاف کہنے کی ضرورت پیش آئے تب دوبارہ یہ تعلقات کشیدہ ہوسکتے ہیں۔ مگر تب تک تو دونوں کی سرحدیں ایک دوسرے کے لئے کھل جانی چاہئے۔ تجارتی، ثقافتی اور کھیل کے تعلقات بحال ہونے چاہئے کیوں کہ ہند پاک کے درمیان کھیل کے مقابلے ہوں‘ تو جو مزہ اس میں ہے وہ انگلینڈ، آسٹریلیا یا ویسٹ انڈیز کے ساتھ ہونے والے مقابلوں میں کہاں!۔ دونوں ممالک کے فنکاروں کا تبادلہ ضروری ہے۔ ہندوپاک کے عوام ایک دوسرے کو چاہتے ہیں۔ یقینا اپنے اپنے ملک کے وفادار ہیں مگر ان کا حال ایک جسم کے دو حصوں کی طرح ہے‘ جنہیں ایک دوسرے سے جوڑ دینا چاہئے۔ ہمیں ا مید ہے کہ مودی اور عمران کے مکتوبات میں استعمال کئے گئے الفاظ کو عملی جامہ پہنایا جائے گا۔ سب ہی اس مبارک وقت کے منتظر ہیں۔