پاکستان کے شمال مغربی صوبہ خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر طالبان دہشت گردوں کے سفاکانہ حملے کے ماسٹر مائنڈ کی شناخت ہوگئی ہے۔اس کا عرفی نام سلم اور اصل نام عمر منصور ہے۔
پاکستان کی سکیورٹی فورسز نے اس کو آرمی پبلک اسکول پر حملے کا ماسٹر مائنڈ قرار نہیں دیا ہے بلکہ خود طالبان جنگجوؤں کا کہنا ہے کہ اس نے بچوں کے قتلِ عام کی منصوبہ بندی کی تھی اور اس نے یہ سب کچھ قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں پاک فوج کے کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے خلاف آپریشن ضربِ عضب کا بدلہ چکانے کے لیے کیا ہے۔
پشاور میں پاک آرمی کے زیر انتظام اسکول پر مسلح دہشت گردوں کے حملے میں ایک سو بتیس ب
چوں سمیت ایک سو چالیس سے زیادہ افراد شہید ہوئے تھے ۔ان میں سے زیادہ تر کو قریب سے انتہائی سفاکیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے سروں میں گولیاں ماری گئی تھیں۔سکیورٹی فورسز نے جوابی کارروائی کرکے اسکول ہی میں تمام سات دہشت گردوں کو ہلاک کردیا تھا۔
طالبان کی ایک ویب سائٹ پر جمعہ کو ایک ویڈیو پوسٹ کی گئی ہے۔اس میں لمبی ڈاڑھی والا ایک جنگجو نظر آرہا ہے اور وہ 16 دسمبر کو اسکول پر حملے کا جواز پیش کررہا ہے۔کیپشن میں اس کا نام عمر منصور لکھا ہے۔
وہ کَہ رہا ہے:”اگر ہماری خواتین اور بچے شہادت کی موت مریں گے تو آپ کے بچے بھی نہیں بچ سکتے۔ہم آپ کے خلاف اسی انداز میں جنگ لڑیں گے جس انداز میں آپ ہمارے خلاف لڑیں گے اور ہم بے گناہ لوگوں سے انتقام لیں گے”۔
خبررساں ایجنسی رائیٹرز نے چھے پاکستانی طالبان کے انٹرویوز کیے ہیں اور ان تمام نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ پشاور حملے کا ماسٹرمائنڈ منصور ہی ہے۔ان میں سے چار کا کہنا تھا کہ وہ ٹی ٹی پی کے سربراہ ملا فضل اللہ کا قریبی ساتھی ہے۔
ان میں سے ایک جنگجو کے بہ قول:”منصور سختی سے جہاد کے اصولوں کی پیروی کرتا ہے ۔وہ اپنے اصولوں میں سخت ہے لیکن اپنے جونئیر ساتھیوں پر بہت مہربان ہے اور جونئیر ساتھیوں میں اپنی دلیری اور بہادری کی وجہ سے بہت مقبول ہے”۔
اب یہ طالبان ہی بتا سکتے ہیں کہ نہتے ،معصوم اور مسلمان بچوں کو بہیمانہ انداز میں قتل کرنا جہاد کا کون سا اصول ہے اور قرآن کی کس آیت اور حدیث کی کس کتاب میں یہ اصول درج ہے جس کی وہ اور ان کا یہ سنگ دل کمانڈر پیروی کررہے ہیں۔ان کی گفتگو سے واضح ہے کہ وہ اسلام اور جہاد کی اپنی ہی تعبیر وتشریح کررہے ہیں مگراس کا اسلامی تعلیمات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
اس ماسٹر مائنڈ نے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ہائی اسکول تک تعلیم حاصل کی تھی اور اس کے بعد ایک دینی مدرسے میں زیر تعلیم رہا تھا۔ایک طالب کا کہنا تھا کہ ”عمر منصور اپنی نوعمری کے زمانے سے ہی سخت ذہن کا مالک ہے اور اس کی ہمیشہ دوسرے لڑکوں سے لڑائی ہوا کرتی تھی”۔
اس کی عمر چھتیس ،سینتیس سال بتائی گئی ہے۔ وہ شادی شدہ ہے اور اس کے تین بچے ہیں۔ان میں ایک بیٹا اور دو بیٹیاں ہیں۔اس کے دو بھائی ہیں اور وہ کچھ عرصہ ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں بھی محنت مزدوری کرتا رہا تھا۔وہ 2007ء میں ٹی ٹی پی کے قیام کے بعد اس میں شامل ہوگیا تھا۔
ایک طالبان کا کہنا تھا کہ ”منصور والی بال کھیلنا پسند کرتا ہے اور اس کا اچھا کھلاڑی ہے۔وہ جہاں کہیں بھی اپنا دفتر منتقل کرتا ہے،وہیں والی بال کا نیٹ لگا لیتا ہے۔طالبان کی ویڈیو میں اس کو پشاور اور اس کے نزدیک واقع قبائلی علاقے درہ آدم خیل کا ”امیر” قرار دیا گیا ہے۔وہ حکومت کے ساتھ طالبان کے مذاکرات کا بھی سخت مخالف تھا۔ایک طالبان کے بہ قول اس نے ٹی ٹی پی میں شمولیت کے وقت سے ہی سخت رویہ اختیار کررکھا ہے اور حکومت کے لیے نرم گوشہ رکھنے والے بہت سے کمانڈروں کو پیچھے چھوڑ دیا تھا۔