…”ڈبویا مجھ کو ہونے نے ، نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا “غالب کایہ ایک مصرعہ ہی انکی شاعری کو سمجھنے کیلئے کافی ہے۔مرزا اسد اللہ غالب کی آج 145ویں برسی
ہے۔ 15 فروری 1869ء کو 73 برس کی عمر میں انتقال کر جانے والے فارسی اور اردو شاعری کے نوشہ میاں کے قلم کا اعجاز ہے کہ آج اردو دنیا کی چوتھی
بڑی زباں ہے،برصغیر کا بٹوارا ہوا تو بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ اردو صرف اگلے پچاس برس کی مہمان ہو گی،یہ کہنے والے بھول گئے تھے کہ اردو زبان کی بقا کے لیے دیوان غالب ہی کافی ہے ۔غالب نے اردو شاعری کی آبیاری کے لیے کتنی غربت،کتنی بے بسی، کیسی کسمپرسی،کیسی کیسی بیماریاں دیکھیں۔ غالب نے گھربار اور کاروبار زندگی چلانے کے لیے بہت ادھار لیے،درباروں میں حاضریاں دیں،شادی شدہ ہونے کے باوجود عشق کیے۔ شاعری ہو یا نثر، انشاء پردازی ہو یا خطوط نویسی،غالب نے فرسودہ روایات کو ٹھوکر مار کر ایسی سادہ و پرکار حسین و رنگین جدتیں پیدا کیں کہ ان کے اسلوب کو کوئی نہ نبھا سکا۔