بغداد ۔ جواد الخطاب
عراق میں ایک ماہ قبل پے در پے فتوحات اپنے نام رقم کرنے والی اسلامی شدت پسند تنظیم دولت اسلامی عراق وشام [داعش] کی شہرت کے ساتھ ملک بھر میں فوجی وردیوں خریداری کے عمل میں بھی غیر معمولی اضافہ ہو گیا ہے۔
فوجی یونیفارم میں یہ اضافہ اس وقت اپنے عروج کو پہنچا جب اہل تشیع کے اہم ترین رہ نما آیت اللہ علی العظمیٰ علی السیستانی نے ملک بھر کے نوجوانوں سے “داعش” کے خلاف جنگ میں حصہ لینے کی تیاری کا حکم دیا۔ انہوں نے کہا کہ کربلا اور نجف کے لیے خطرہ بننے والے گروپ کے خلاف پوری عراقی قوم کو متحد ہونا چاہیے۔ چنانچہ ان کی اپیل پر ہزاروں کی تعداد میں نوجوان فوج میں رضاکارانہ خدمات پر آمادہ ہوئے۔
العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق آیت اللہ علی السیستانی کے فتویٰ کے بعد بڑی تعداد میں رضاکار نوری المالکی کی فوج کے زیر کمان داعش کی سرکوبی کے لیے بھرتی ہو رہے ہیں۔ چونکہ فوج کے پاس اتنی بڑی تعداد میں فوجی وردیاں موجود نہیں ہیں جنہیں تمام رضاکاروں کو فراہم کیا جا سکے۔ یہی وجہ ہے کہ رضاکار جنگجوؤں نے خود سے مارکیٹ میں “ریڈی میڈ” یونیفارم کی خرید کا فیصلہ کیا۔ رپورٹ کے مطابق اب مارکیٹ میں لوگ محض” فیشن” کے لیے بھی فوجی وردیاں خریدنے لگے ہیں۔ خریداروں میں وزراء، سیاست دان، دانشور، صحافی، ٹیلی ویژن چینلوں کے نامہ نگار اور دوسرے لوگ بھی پیش پیش ہیں۔
رپورٹ کے مطابق پچھلے چند برسوں کے دوران عراق بھر سیکیورٹی کی خراب صورت حال کے باعث پرائیویٹ سیکٹر میں فوجی وردیوں کی تیاری کا عمل بھی کافی حد تک متاثر ہوا۔ سیکیورٹی اداروں کی جانب سے یہ الزام عائد کیا جاتا رہا ہے کہ کاری گر چھان بین اور شناختی ثبوت مانگے بغیر اندھا دھند یونیفارم فروخت کرتے جا رہے ہیں۔ کوئی نہیں پوچھتا تھا کہ فوجی وردی کا خریدار کس مقصد کے لیے خریداری کر رہا ہے۔ پولیس کی جانب سے اس پوچھ تاچھ کی وجہ سے درزیوں بالخصوص یونیفارم سازی کا عمل کافی حد تک مندی کا شکار رہا ہے۔
فوجی یونیفارم مارکیٹ
عراق میں سال ہا سال کی خانہ جنگی کے دوران ہرآنے والے دور میں فوجی یونیفارم کی طلب میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ کمی اگر آئی ہے تو وہ سیکیورٹی اداروں کی جانب سے فوجی یونیفارم کی خریداری کے بارے میں چھان بین کی ہدایات کے بعد دیکھی گئی۔
سیکیورٹی اداروں کا کہنا ہے کہ بدامنی کی لپیٹ میں آئے عراق میں درجنوں عسکریت پسند گروپ مصروف عمل ہیں۔ یہ عسکری گروپ مارکیٹ سے فوج اور پولیس کی وردیاں خرید کرتے ہیں اور فوج کی آڑ میں شہریوں کے گھروں پر رات کے اوقات میں چھاپے مارتے، فوجی چھاؤنیوں پر حملے کرتے اور لوٹ مار کرتے ہیں۔
آیت اللہ علی السیستانی کے فتوے کے بعد بغداد مین فوجی وردیاں تیار کرنے والے ایک درزی نے سوال کا عجیب نوعیت کا جواب دیا۔ اس نے کہا کہ فوجی یونیفارم کی طلب اتنی زیادہ ہے کہ ہمیں ملک میں اس کا الگ سے “فوجی یونیفارم بازار حصص” کے نام سے اسٹاک مارکیٹ کا شعبہ قائم کرنا چاہیے۔
ابو علی نامی ایک دوسرے کاریگر نے کہا کہ “یونیفارم کی تیاری اور خریدو فروخت کے پر پہلے پابندیاں تھیں لیکن انہیں کوئی نہیں پوچھتا۔ ایسا اس لیے کیا جاتا ہے تاکہ فوج میں خدمات انجام دینے والوں کی حوصلہ افزائی ہو اور وہ سہولت کے ساتھ فوجی وردی حاصل کر کے ملک مین دہشت گردی کی کارروائیوں کی روک تھام میں اپنا حصہ ڈال سکیں۔
رپورٹ کے مطابق بازار میں دو قسم کے فوجی یونیفارم دستیاب ہیں۔ ایک کو “مرقط” اور دوسرے کو”خاکی” وردی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اول الذکر کا کپڑا مقامی سطح پر تیار کیا جاتا ہے لیے اس سے بنائے گئے یونیفارم کی قیمت 70 سے 80 ہزار عراقی دینار تک ہوتی ہے جبکہ “خاکی ” وردی کا کپڑا چین سے منگوایا جاتا ہے۔ اعلیٰ معیار کے کپڑے سے تیارکردہ یونیفارم کی قیمت ایک لاکھ بیس ہزار سے ڈیڑھ لاکھ عراقی دینار تک میں فروخت ہو رہا ہے۔
ایک سوال کے جواب مین ابو علی نے بتایا کہ عراق میں فوجی یونیفارم میں استعمال ہونے والا کپڑا مقامی نہیں بلکہ چین، بھارت اور دوسرے ممالک سے منگوایا جاتا ہے۔ یہی ہے کہ اس سے بننے والا یونیفارم بھی خاص مہنگا ہوتا ہے۔
عراق کے ایک فوجی افسر”ابو منتظر” نے کہا کہ یہ غلط ہے کہ سیکیورٹی ادارے مقامی سطح پر تیار ہونے والی فوجی وردیوں کی خریدو فروخت کی نگرانی نہیں کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عراقی فوج کو سال میں موسم کی مناسبت سے وردیاں دی جاتی ہیں۔ اس کے علاہ بعض تقریبات میں شرکت کے لیے فوجیوں کو اپنی مرضی کا یونیفارم خرید کرنے کی بھی اجازت حاصل ہوتی ہے۔