سہیل انجم
خوشتر گرامی کی پیدائش اکتوبر1902 میں سیالکوٹ پنجاب میں ہوئی اور ان کا انتقال15 جنوری 1988 کو دہلی میں ہوا۔ یوں تو وہ ایک ادیب اور ادبی صحافی کی حیثیت سے مشہور ہیں لیکن اپنے صحافتی کیرئر کے آغاز میں انھوں نے کئی روزنامہ اور ہفت روزہ اخباروں اور رسالوں میں بھی کام کیا تھا۔ انھوں نے اپنی صحافت کا آغاز لالہ لاجپت رائے کی زیر تربیت کیا اور بعد میں مولانا ظفر علی خاں کے اخبار’’زمیندار‘‘ میں بحیثیت رپورٹر خدمات انجام دیں۔ اس کے علاوہ انھوں نے لاہور کے مشہور اخبار
’’بندے ماترم‘‘ کے شعبۂ ادارت میں بھی خدمات انجام دیں۔
خوشتر گرامی کا اصل نام رام رکھا مل چڈھا تھا۔ خوشتر گرامی ان کا قلمی نام تھا جو بعد میں ان کی اصل شناخت ثابت ہوا۔ ان کے اصل نام سے بہت کم لوگ واقف ہیں اور اس سے بھی بہت کم لوگ واقف ہیں کہ انھوں نے ابتدائے عمر میں روزنامہ اخباروں میں کام کیا تھا۔ رام رکھا مل چڈھا ایک وطن پرست انسان تھے۔ ہندوستان سے بے انتہا محبت کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ’’زمیندار‘‘ اور ’’بندے ماترم‘‘ میں ان کی تحریریں حب وطن کے جذبات سے سرشار ہوتیں۔ ان اخباروں میں کام کے دوران انھوں نے اپنی تمام صلاحیتوں سے کام لیا اور رپورٹنگ کے علاوہ ڈیسک پر بھی خدمات انجام دیں۔ انھوں نے خبروں کے ترجمے بھی کیے اور تقریباً وہ تمام کام کیا جو ایک اخبار میں کام کرنے والوں کو کرنے پڑتے ہیں۔ انھوں نے ان اخباروں میں جو تجربات حاصل کیے ان کا استعمال انھوں نے اپنے ماہنامہ رسالہ ’’بیسویں صدی‘‘ میں کیا۔ ان کی تحریروں میں شروع سے ہی طنز و ظرافت کی آمیزش تھی۔ وہ ایک اچھے طنز نگار تھے۔ ان کی اس خوبی کا برملا مشاہدہ ’’بیسویں صدی‘‘ میں کیا جا سکتا ہے۔
خوشتر گرامی نے ادبی ماہنامہ ’’بیسویں صدی‘‘ کا آغاز ۱۹۳۷ میں لاہور سے کیا تھا۔ تقسیم ہند کے بعد وہ دہلی چلے آئے اور دریا گنج سے اسے دوبارہ شروع کیا۔ اس رسالے کو اتنی شہرت حاصل ہوئی کہ اردو والوں کے نزدیک دریا گنج اور بیسویں صدی لازم وملزوم بن گئے بالکل اسی طرح جیسے خوشتر گرامی اور بیسویں صدی کو
ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔
وہ ایک متمول خاندان میں پیدا ہوئے تھے۔ سیالکوٹ میں ان کے دادا دیوان گنپت رائے ایک بڑے تاجر اور کاروباری تھے۔ شہر کے رئیسوں میں ان کا شمار ہوتا تھا۔ لیکن رفتہ رفتہ ان کی تجارت ماند پڑنے لگی اور ان کے والد دیوان بشمبھر ناتھ تک آتے آتے تجارت تقریباً ٹھپ پڑ گئی۔ زبردست خسارہ ہوا اور اس طرح ایک رئیس خاندان میں پیدا ہونے کے باوجود رام رکھا مل چڈھا کو عسرت و تنگ دستی میں زندگی گزارنی پڑی۔ ابھی ان کی عمر صرف تین سال تھی کہ ان کے والد کا انتقال ہو گیا۔ ان کی والدہ نے کسی طرح ان کی پرورش کی۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم اردو اور فارسی کی حاصل کی لیکن جب وہ پندرہ برس کی عمر کو پہنچے تو والدہ بھی انھیں داغ مفارقت دے گئیں۔
حالات نے انھیں میٹرک سے آگے تعلیم حاصل کرنے کا موقع نہیں دیا۔ تاہم انھوں نے منشی فاضل کا امتحان بھی پاس کیا۔
بہر حال حالات نے انھیں اس عمر میں ملازمت کرنے پر مجبور کر دیا جس عمر میں عام خاندانوں کے لڑکے تعلیمی اداروں میں شب وروز گزارتے ہیں۔ پھر بھی اسے ان کی خوش قسمتی ہی کہا جائے گا کہ جہاں انھیں لالہ لاجپت رائے اور مولانا ظفر علی خاں کے زیر تربیت کام کرنے کا موقع ملا وہیں علامہ اقبال، مولانا تاجور نجیب آبادی، شہید بھگت سنگھ او رمولانا عبد المجید سالک جیسی شخصیات کی قربت اور شفقت بھی حاصل رہی۔
تقسیم ہند سے قبل دس سال کے عرصے میں بیسویں صدی نے مقبولیت کے عروج پر اپنے قدم رکھ دیے تھے اور اس سے بڑے بڑے شاعر و ادیب وابستہ ہو گئے تھے۔ لیکن تقسیم ملک نے جہاں ہزاروں خاندانوں کو بے گھر کیا وہیں اس نے اس معیاری رسالے کو بھی بے گھر کر دیا۔ لیکن خوشتر گرامی نے ہمت نہیں ہاری۔ انھوں نے اس کا اپنے ذہن پر کوئی اثر قبول نہیں کیا کہ ان کا دفتر تباہ وبرباد ہو گیا یا پرچے کو نکالنے کے تمام راستے بند ہو گئے۔ وہ دہلی آگئے اور دریا گنج کے مین روڈ پر بیسویں صدی کے لیے ایک دفتر لے لیا۔ اس کے بعد انھوں نے نئے سرے سے اس رسالے کی عمارت تعمیر کی اور پھر ’میں کہاں رکتا ہوں عرش و فرش کی آواز سے، مجھ کو جانا ہے بہت اونچا حد پرواز سے‘ والا معاملہ بن گیا۔ رسالے کو جتنی شہرت و مقبولیت لاہور میں حاصل ہوئی تھی اس سے کہیں زیادہ دہلی میں حاصل ہوئی۔ پھر تو بیسویں صدی ادب کا ایک ٹریڈ مارک بن گیا۔ جو اس رسالے میں چھپ گیا سمجھو ایک مستند ادیب اور شاعر بن گیا۔
رام رکھا مل چڈھا نے بیسویں صدی نکالنے سے قبل اس وقت اپنا نام خوشتر گرامی رکھا تھا جب وہ صحافت سے کوسوں دور تھے۔ پندرہ سال کی عمر میں جب ان کی والدہ کا انتقال ہوا تو انھوں نے اپنی والدہ کا ایک مرثیہ لکھا تھا۔ اس کے بعد ان کے اندر موجود شاعری کا ذوق و شوق پروان چڑھنے لگا اور انھوں نے حب وطن سے سرشار بہت سی قومی نظمیں لکھیں۔ لیکن ان کے ایک ادیب اور ادبی صحافی ہونے کا اصل جوہربیسویں صدی سے کھلا۔ اس رسالے نے اردو ادب کو ایسے ایسے لعل و گہر دیے جس کی مثال نہیں ملتی۔ اس عہد کا کون سا ایسا شاعر اور ادیب تھا جو اس میں چھپنا نہیں چاہتا تھا۔ جب کسی کی غزل یا افسانہ اس میں چھپتا اور اسے اس کی خبر ہوتی تو وہ دوڑا دوڑا بک اسٹال تک جاتا اور رسالہ خرید کر لاتا۔ یہ صورت حال صرف متوسط شاعروں اور ادیبوں تک محدود نہیں تھی بلکہ اعلی پائے کے شاعر و ادیب کی بھی یہی حالت ہوتی۔ بیسویں صدی کا انتظار نہ صرف ادیبوں کے گھروں میں ہوتا بلکہ اردو ادب سے دلچسپی رکھنے والوں اور یہاں تک کہ سیاست سے دلچسپی رکھنے والوں کو بھی ہوتا۔
اس کی وجہ یہ تھی کہ ادب سے دلچسپی رکھنے والے تو شعری و ادبی حصے کا مطالعہ کرنے کے لیے اس کا انتظار کرتے لیکن سیاسی ذوق رکھنے والے تیر و نشتر اور قلمی چہرہ اور خبرنامہ پڑھنے کے لیے اس کے منتظر رہتے۔ قلمی چہرہ تو اتنا جامع اور دلچسپ ہوتا کہ چند سطروں میں اس شخص کی پوری شخصیت اپنی تمام تر خوبیوں اور خامیوں کے ساتھ جلوہ گر ہو جاتی جس کا قلمی چہرہ لکھا جاتا۔ اسی طرح تیر و نشتر بھی بہت دلچسپ ہوتا۔ پہلے ایک خبر ہوتی اور پھر اس کے جواب میں کوئی جملہ ہوتا جو اتنا بھرپور ہوتا کہ مزا آجاتا۔ ایک کالم سرگوشیاں ہوتا تھا جس میں منتخب سوالوں کے مزے دار جواب دیے جاتے۔ تیر و نشتر میں حکمرانوں اور طاقتور لوگوں کے جبر و ظلم اور لوٹ کھسوٹ کے خلاف ایک زبردست آواز ہوتی۔
بیسویں صدی کسی نظریہ کا مبلغ نہیں تھا۔ وہ اگر کسی بات کی تبلیغ کرتا رہا تو وہ معیاری ادب کی تبلیغ کرتا رہا۔ بیسویں صدی کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ اس نے اپنے صفحات پر بہت اچھے اچھے ادیبوں کو جنم دیا اور انھیں پروان چڑھنے کا موقع بھی دیا۔ اس کے ساتھ ساتھ اس میں چھپنے والے قلمکاروں کو معقول اعزازیہ بھی دیا جاتا۔ وہ ۱۹۷۷ تک بیسویں صدی کو نکالتے رہے اور جب پیرانہ سالی کو پہنچے تو ان سے اس رسالے کو جاری رکھنا مشکل ہو گیا۔ بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ انھوں نے ایک معقول رقم کے عوض بیسویں صدی رحمن نیر کے ہاتھوں بیچ دیا۔ لیکن معروف قلمکار فاروق ارگلی اس کی تردید کہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ خوشتر گرامی نے پرچہ بیچا نہیں بلکہ اسے ایک ایسے ہاتھ کو سونپ دیا جو اسے زندہ رکھنے کا صلاحیت رکھتا تھا۔ وہ روزنامہ راشٹریہ سہارا ۲۵ دسمبر ۲۰۱۳ کے شمارے میں ایک مضمون ’’بیسویں صدی کا افسانوی صحافی: خوشتر گرامی‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’ان کی محنت اور صلاحت نے انھیں بے پناہ کامیابی عطا کی۔ قدرت نے انھیں ہر اس خوشی سے نوازا جس کے لوگ خواب دیکھتے ہیں۔ لیکن وقت بدل چکا تھا، ہندوستان کی نئی نسلیں اردو سے دور ہو رہی تھیں۔ ان کے بیٹوں نے اعلیٰ تعلیم پا کر باپ کی ذمہ داری سنبھالنے کے بجائے بیرون ملک کی شاندار ملازمتیں کرنا پسند کیا۔ خوشتر صاحب نے بہت کوشش کی کہ ان کے صاحبزادے کشن کمار پبلشنگ کا کام سنبھال لیں۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے ’’نئی صدی‘‘ کے نام سے ہندی بھاشا کا ایک رسالہ بھی شروع کیا لیکن بات نہیں بنی۔ 1975 کا سال آتے آتے ضعیفی اور بیمارے نے گھیر لیا۔ جسم ساتھ چھوڑ رہا تھا لیکن بیسویں صدی کی پرورش تو خون جگر سے کی تھی۔ رسالہ ان کی اولاد کی طرح تھا۔ وہ کسی قیمت پر اسے بند نہیں ہونے دینا چاہتے تھے۔ زیادہ تر لوگوں کا خیال ہے کہ انھوں نے رحمن نیر مرحوم کے ہاتھوں معقول قیمت پر اسے فروخت کر دیا تھا۔ یہ قطعی غلط ہے۔
در اصل خوشتر صاحب کو بیسویں صدی بیچنا نہیں زندہ رکھنا تھا۔ انھوں نے صرف اتنی رقم قبول کی جتنی ایک پرنٹنگ پریس کو واجب الادا تھی۔ جو اندازاً دو سوا دو لاکھ سے زیادہ نہیں تھی۔ وہ صرف کرسی کی پشت پر لٹکا ہوا اپنا کوٹ پہن کر دریا گنج مین روڈ پر واقع اپنے دفتر سے اتر کر چلے گئے۔ انھیں رحمن نیر جیسا با ذوق، محنتی اور پر جوش جانشین مل گیا تھا۔ اگر وہ سچ مچ ’’بیسویں صدی‘‘ کو فروخت کرتے تو دفتر کا ساز و سامان اور کتابوں کا ذخیرہ ہی لاکھوں کا تھا۔ دفتر کی جگہ کی قیمت اس وقت پندرہ بیس لاکھ روپے سے کم نہیں تھی۔ انھوں نے بیسویں صدی فروخت نہیں کیا اسے زندہ رکھنے کے لیے صحیح ہاتھوں میں دے دیا تھا۔ دنیا نے دیکھا کہ ان کا اندازہ درست تھا۔ رحمن نیر نے خوشتر گرامی کے بعد جس شان کے ساتھ بیسویں صدی کی اشاعت کی اس میں خوشتر صاحب کا عکس واضح تھا۔۔۔خوشتر گرامی جب تک زندہ رہے ضعیفی اور علالت کے باوجود تیر و نشتر لکھتے رہے۔ اپنے پرانے پسندیدہ کارٹونسٹ بلرام سے کارٹون بنواتے رہے۔ سالہا سال تک وہ رسالہ بیسویں صدی کے موسس کے طور پر اپنی اس معنوی اولاد سے وابستہ رہے‘‘۔ بیسویں صدی میں شائع ہونے والے کالم تیر و نشتر اور قلمی چہرہ کے بارے میں بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ چھپتے تو خوشتر گرامی کے نام سے تھے لیکن ان کو لکھنے والے دوسرے تھے۔ لیکن فاروق ارگلی اس کی بھی تردید کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ کالم خود خوشتر گرامی لکھا کرتے تھے۔ 1974 میں انھوں نے تیر و نشتر کا انتخاب شائع کیا تھا جس میں کالم قلمی چہرے بھی شامل تھے۔