ممبئی :13اکتوبر ۔(ندیم صدیقی) بتاخیر ملنے والے اطلاع کے مطابق اُردو اور گجراتی کے ممتاز شاعر اور صحافی (88سالہ) عزیز قادری شدید ضعف اور طویل بیماری کے بعد گزشتہ سنیچر9اکتوبر کو بڑودہ میں انتقال کر گئے۔
سید عبد العزیز قادری بڑودوِی المعروف عزیز قادری 26 اکتوبر1933 ع کو بڑودہ (گجرات) میں پیدا ہوئے تھے، اُن کی تعلیم تو محض میٹرک تک ہی تھی مگر مرحوم نے اپنے ذاتی ذوق و شوق سے اتنی علمی استعداد حاصل کر لی تھی کہ ایک مدت تک وہ گجراتی زبان کے اخبارات میں خدمات بھی انجام دیتے رہے۔
موم کا گھر ہے میرا ، نیند میں چونک اٹھتا ہوں
خواب میں جب بھی میرے سامنے آتے ہیں چراغ
ایسا شعر کہنے والے عزیز قادری نے اپنے زمانے کے مشہور اُستاد حضرت درد بڑودوِی سے رشتۂ تلمذ قائم کیا اور گجرات میں اُردو کے ایک ممتاز شاعر کے طور پر اپنا باوقار تشخص بنایا۔ 1986 میں ان کا پہلا شعری مجموعہ بنام ’ سفر‘ بیک وقت اُردو اور ہندی میں، 1997 میں دوسری شعری کتاب ’نئی قندیل‘ اُردو میں ، اس سے پہلے گجراتی زبان میں کہی ہوئی غزلیں’اُپ وَن‘1963 میں کتابی شکل میں چھپ چکی ہیں۔
عزیز قادری خاصے پُر گو شاعر تھے انہوں نے نعت و مراثی بھی کہے ’چراغِ عقیدت ‘ اور ’فیضان کربلا‘کے نام سے اُن کا یہ کلام بھی زیورِ طباعت سے آراستہ ہوچکا ہے ۔ ان کی کتابوں کے یہ چند نام نمونے کےطور مذکور ہوئے ہیں ورنہ اُن کی کتابوں کا ایک سلسلہ ہے۔ مرحوم نے تراجم بھی کیے جس میں ندا فاضلی کی مشہور کتاب’ ملاقاتیں‘ اور شاہد پرویز کا ناول’ کھلی آنکھ کا سپنا‘ قابل ِذکر ہیں ۔ یہ دونوں تراجم انڈین ایکسپریس گروپ کے (گجراتی)اخبار’ رنگ پربھا‘ میں شائع ہو تے رہےہیں ۔ گجراتی اخبارات میں ان کے ادبی کالم بھی لوگ دلچسپی سے پڑھتے تھے۔سوشلسٹ پارٹی کے مزدور لیڈر کے طور پر بھی ان کی ایک شناخت تھی۔
عزیز قادری کو مختلف اداروں اور اکیڈمیز کی جانب سے اعزاز سے بھی سرفراز کیا گیا جس میں گجرات سرکار کا سب سے بڑا اعزاز فخرِ گجرات(’ گجرات گورو پرسکار‘) بھی شامل ہے جبکہ گجرات اُردو اکادیمی نے1987 میں ان کے اُردو شعری مجموعے’ سفر‘ پر پہلا انعام بھی دِیا تھا۔
عزیز قادری ایک حوصلہ منداور جری فطرت کے حامل شخص تھے مرحوم کا یہ شعر اُن کے باطن کا ترجمان بنا ہوا ہے :
راہِ حیات سخت اگر ہے تو کیا ہوا
زندہ دلوں کی طرح کروں گا سفر تمام
کوئی دو برس ہو رہے ہونگے کہ جب ہم بڑودہ گئے تو اُن کی مزاج پرسی کے لیے حاضری دی تو اپنے ضعف کے باوجود تبسم کے ساتھ انہوں نے ہم سے پوچھا تھا: ندیم میاں کیسے ہو۔!
ہماری زبان و ادب میں اب ایسےاپنے آپ کی تعمیر ، دوسروں اور بالخصوص چھوٹوں کی قدر کرنے والے شاید ناپید ہو گئے ہیں ، اللہ ان کے درجات بلند کرے ۔ آمین
عزیز قادری بڑودوِی کے پسماندگان میں چار بیٹے ہیں جن میں شکیل قادری اپنے والد کےعلمی وارث ہیں وہ شاعرہی نہیں ہیں بلکہ گجراتی صحافت سے بھی ان کی وابستگی ہے۔ عزیز قادری کی اہلیہ پہلے ہی رِحلت کر چکی ہیں-?