آج بہ تاریخ 2024-8-13، تنظیم علی کانگریس کی ایک میٹنگ منعقد ہوئی جس میں حالات حاضرہ پر غور وخوض اور خصوصاً وقف بوڑڈ اور اس سے متعلق بل پر گفتگو کی گئ ۔ ممبران نے کہا کے ہزاروں لوگوں نے اپنی جایداد کو الله کے نام پر وقف اس لئے کیا تھا کہ ان کی منشاء کے مطابق ان کی وقف کی ہوئی جایداد سے کار خیر انجام دیا جاتا رہے اور اس کو خرید و فروخت نہ کیا جائے۔ ان جایداد کا حساب کتاب ایک منتظم طریقہ سے انجام پاۓ اس
کے لئے حکومت کی جانب سے قانون بنایا گیا جسے وقف ایکٹ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ وقف بوڑڈ کے زیر نگرانی جو زمینیں، عمارتیں وغیرہ ہیں وہ سب ہندوستان کے ان باشندوں (مسلمانوں)کی اپنی زمینیں ہیں جنہوں نے چاہا کہ ان کی جایداد کوئی فروقت نہ کر سکے اور رہتی دنیا تک ان کے زریعے کار خیر انجام دیا جاتا رہے، اس لئے انہوں نے اپنی زمینوں اور جایداد کو الله کے نام وقف کر دیا۔ مگر افسوس صد افسوس کہ اوقاف کی خصتہ حالی اور ان پر ناجائز قبضے اس بات کا ثبوت ہے کہ متولی حضرات نے اپنے کام کو دیانتداری سے انجام نہیں دیا اور وقف بوڑڈ خود اوقاف کی لوٹ کا ذریعہ بن کر رہ گئے۔ کسی دوسرے پر اوقاف کی لوٹ کا الزام لگانے سے پہلے اس بات کا اعتراف بھی ضروری ہے کہ اوقاف کی لوٹ یہ ان پر ناجائز قبضے بغیر ان افراد کی ملی بھگت سے ممکن نہیں جن پر ان اوقاف کی حفاظت کی ذمہ داری تھی۔
یہ کہنا قطعی غلط نہیں ہوگا کہ اوقاف کے مقصد کو خود وقف بوڑڈ اور متولیان نے بے معنی اور ناکام کر دیا۔ نہ ان کو اس بات کا خیال رہا کہ یہ ملکیت الله کے نام پر وقف ہے اور نہ ہی انہوں نے منشاء واقف کا ہی کچھ خیال کیا۔ممکن ہے کہ کچھ جگہ صورتحال بہتر ہو لیکن بیشتر کا یہی حال ہے۔جب اپنے لوگوں نے لوٹ میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تو کسی اور سے کیا توقع کی جا سکتی ہے؟ وقف بوڑڈ امینڈمنٹ بل 2024 اسی لوٹ کے سلسلے کی اگلی کڑی ہے- بات یوں بھی کہی جا سکتی ہے کہ اگر موجودہ وقف کا نظام اوقاف کا آھستہ آھستہ ڈیڑھ سو یا دو سو سال میں جوحشر کرتا اب وہی کام اب پچاس سال سے بھی کم مدت میں انجام پزیر ہو جائے گا۔
جب کہ اوقاف کی حفاظت اور اسکا صحیح استعمال یہ دینی فریضہ ہونے کے ساتھ ساتھ سماجی فریضہ بھی ہے کیونکہ اس کے ضریعے سے معتدد فلاحی کام انجام دے کر سماج کی صورتحال کو بہتر بنایا جا سکتا ہے، لیکن سماجی فلاح کی فکر ہے کس کو؟ سرکار کو اس کی حفاظت کے لیۓ ممکن اقدام کرنے چاہۓ اور ایسے قانون بنانے چاہۓ جو اس کی بقاء کے لیے ہو نہ کہ اسکا نام و نشان مٹانے کے لیے۔ ماہرین قانون کے مطابق وقف بوڑڈ امینڈمنٹ بل 2024 ہندستانی مسلمانوں کو آئین کے ذریعے فراہم ہونے والے حقوق کی خلاف ورزی بھی کرتا ہے اس لئے آئین کا تحفظ اور احترام کرنے والے اداروں اور افراد کے ذریعے اس کی مخالفت کی جانا لازمی ہے۔ وقف کے لئے پورٹل بنے اور اس میں وقف کی تمام پراپرٹی کو درج کیا جانا اچھا ہے مگر اسکے لئے جو وقت دیا گیا وہ انتہائی قلیل ہے۔ اور اس کے بعد بل میں یہ لکھا ہونا کہ؛
No suit, appeal or other legal proceeding for the
enforcement of any right on behalf of any waqf which have not been registered in accordance with the provisions of this Act, shall be instituted or commenced or heard, tried or decided by any court after expiry of a period of six months from the commencement of the Waqf
(Amendment) Act, 2024.”
اس منشاء کو بتانے کے لئے کافی ہے جس مقصد کے تحت یہ بل لایا جا رہا ہے۔ ایک طرف تو ملک کے تمام باشندوں کے لئے قانون میں یکسانیت کی بات کی جاتی ہے اور دوسری طرف ملک کی سب سے بڑی اقلیت کے لئے موجودہ قانون میں ہی اختلاف کیا جا رہا ہے۔ مثلاً ملک میں 70 سے زیادہ ٹرائبیونل ہیں، کیا سب کا دائرہ اختیار / jurisdiction اسی طرح تبدیل کیا جائے گا جیسے وقف ٹرائبیونل میں کیا جا رہا ہے؟ کیا دیگر مذاہب کی مذہبی جاگیر کی دیکھ بھال کے لئے بنے قانون میں بھی یہی شرطیں شامل کی جاۓ گی جو وقف کے لئے کی جا رہی ہیں؟