
تحریر: ندیم صدیقی
وہ ایک لڑکا جو ممبئی کے کھار علاقے میں ایک مدرس کے گھر10 مارچ 1911ء کو جنما تھا اُس کے گھر میں بجلی نہیں تھی وہ اسٹریٹ لائٹ کے نیچے پڑھتا تھا کہ ایک دن گھر سے قریب ایک شمشان کے پنڈت نے دیکھا تواُس نے اِس لڑکے کو شمشان میں لگے بجلی کے کھمبے کی روشنی میں بیٹھ کر پڑھنے کی پیش کش کی اوراُس نے اس پیش کش کو قبول کیا ۔
نو عمری کا زمانہ رات میں وہ شمشان میں پڑھتا تھا تو دوسری طرف اُسی شمشان میں چتا جلائی جا تی تھی۔
کسی طور اُس نے تاریخ جیسے مضمون میں ممبئی یونیورسٹی سے اور ناگپور یونیورسٹی سے انگریزی میں ایم اےکر لیا اور جب شعور کو پہنچا توشاعری کا شوق ہوا اُس زمانے میں علامہ آرزوؔ لکھنوی کاطوطی بول رہا تھاسواُس نو جوان نے آرزوؔکی شاگردی اور محمود حسن رضوی سے محمود سروش جیسا تخلص اختیار کیا۔ روایت ہے کہ آرزؔواُس نوجوان کو ہر دوسرے تیسرے دِن کوئی ایک مصرع دیتے اور اس طرح پر کم از کم بیس سے پچیس شعر کہنے کی تاکید کرتے اور شرط یہ بھی ہوتی کہ جب میرے پاس آنا تو ہر شعر میں کم از کم ایک غلطی ضرور تلاش کرلینا اور کوشش یہ بھی کرنا کہ اس غلطی کی اصلاح بھی خود کرسکو اور جب کوشش کے باوجود اصلاح نہ کرسکو تو پھر مجھ سے کہنا اور اگر کسی شعرمیں تم کو کوئی غلطی نہ ملے تو سمجھ لینا کہ مَیں اس میں کم از کم دو غلطی تو ضرور نکالوں گا المختصر یہ سلسلہ چلا اور کئی برس تک۔ مشق کی اس اگنی سے وہ نکلا تو کندن بن چکا تھا پھر خود اس کے شاگردوں کا ایک حلقہ معروف ہو چکا تھا۔ علامہ آرزوؔکا ایک جملہ ادبی تاریخ میں درج ہے کہ۔۔۔ ’’مَیں شاگرد نہیں ، اْستاد بناتا ہوں‘‘۔۔۔

اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کی بات حرف بہ حرف سچ ثابت ہوئی۔ پرتوؔ لکھنوی، احسن ؔرضوی داناپوری اور محمود حسن سروشؔ یہ تینوں اشخاص تو اِسی شہر ممبئی کے ہیں جو علامہ آرزو لکھنوی ہی کے تربیت یافتہ تھے اور اپنے زمانے میں ممبئی کے ادبی و شعری حلقے میں یہ تینوں حضرات بلا اختلاف محترم اورمُعزَز تھے۔محمود حسن سروش انگریزی اور تاریخ میں یعنی ڈبل ایم تھے ہی مگر فارسی پراس درجہ قدرت تھی کہ ممبئی کے ایران کلچرل ہاؤس میں جب کوئی اِیرانی مہمان آتا تو اسکی تقریر کا بر وقت اور برجستہ اُردو ترجمہ محمود سروش ہی کرتے تھے۔ اُنہوں نے کوئی 84برس کی عمر پائی۔(چارجولائی 1996 کو محمود سروش ممبئی ہی میں آسودۂ خاک ہوئے۔ )
محمود سروش خوب کہتے تھے طرحی مشاعروں اور مقاصدوں کے لئے فی البدیہ شعر موزوں کرتے تھے یعنی اْنھیں زود گو بھی کہا جاسکتا ہے ہر چند کہ اہلِ بیت کی شان میں قصیدہ کہنا کوئی عام سی بات نہیں برسوں کی ریاضت اور مشق مطلوب ہوتی ہے ،اُنہوں نے قصیدے کہے مگر اس کے باوجود اُنہیں بسیار گو نہیں کہیں گے۔ دراصل زود گوئی تو اپنے آپ میں ایک وصفِ احسن ہے مگر بسیار گوئی۔۔۔بسیار خوری کی طرح غیر مستحسن ہی نہیں بلکہ معیوب عمل سمجھا گیا ہے۔
محمودسروش عالم شخص تھے۔مگر اپنے علم سے بے نیازی بھی اُن کی ایک صفت تھی۔اُنہوں نے اپنے بھائیوں سبط ِحسن رضو ی،یعقوب حسن رضوی وغیرہ کے لیے فلمیں بھی لکھیں(دھرمیندر اور مینا کماری کی مشہور فلم ’’ بہاروں کی منزل‘‘ کی کہانی انہی محمود سروش کا نتیجہ ٔ فکر تھی) اورمحمود سروش نے دہلی میں بھی علم و ادب کے کام کئے اُنہوں نے اُس زمانے میں نیشنل بک ٹرسٹ جیسے مؤقر ادارے کے لیے بھی علمی و ادبی خدمات انجام دیں۔
بمبئی کے مشہور روزنامہ انقلابؔ کیلئے وقائع نگاری کی ذمے داری بھی وہ نبھا چکے تھے ۔ اُن کا ذاتی کتب خانہ شہر بھر میں مشہور تھاجس میں علمی وادبی کتب کا ایک بیش بہا خزانہ تھا جو، اب رضوی کالج (باندرہ)میں منتقل ہو چکا ہے۔
سروش مرحوم کے ذوق ِمطالعے کے بارے میں ایک واقعہ یہ بھی یہاں درج ہوجائے کہ مصحفی پر وہ ، کچھ کام کر رہے تھے۔ مصحفی کی ایک کتاب کی انھیں تلاش تھی جو عام اطلاع کے مطابق شہر میں کسی کے پاس نہیں تھی۔ پتہ چلا کہ فلاں صاحب کے پاس وہ کتاب ہے مگر وہ صاحب اپنی کتاب کسی کو نہیں دیتے۔ محمود سروش نے کہا :’’ارے بہت ہوگا وہ صریح انکار کر دیں گے ۔ میں ان کے پاس جاؤں گا ضرور اور عرض بھی کروں گا ، اگر اللہ اور میرے مولا نے چاہا تو ہو سکتا ہے کہ میرے ساتھ وہ نہ ہو جو وہ دوسروں کے ساتھ رویہ روا رکھتے ہیں۔
لازم نہیں کہ سب کو ملے ایک سا جواب۔‘‘
مختصر یہ کہ محمود سروش ان کے پاس گئے اور اُن کے ذخیرۂ کتب کو دیکھ کر موصوف کے ذوق ِ علم کی تعریف کی، شخصِ مذکور نے بھی کچھ سوال وجواب کیے تو اُس پر محمود سروش کا بھی ذوق ِعلم عیاں ہوا اور اب اس نے کہا:
عزیزم ! میں آپ کی مطلوبہ کتاب دے سکتا ہوں مگر ایک شرط کے ساتھ۔ ۔
محمود سروش نے شرط پوچھی۔ جواب ملا کہ صبح کتاب دوں گا اور شام کو وہ کتاب آپ مجھے واپس لا کردیں گے۔ محمود سروش نے یہ شرط مان کر ان کا شکریہ ادا کیا اور کوئی ایک عشرے تک یہ سلسلہ چلتا رہا کہ وہ صبح اُس شخص کے گھر جاتے اور کتاب لاتے اور شام کو وہی کتاب واپس کرنے جاتے اور پھر دوسری صبح وہی عمل اور پھر شام کو کتاب کی واپسی۔۔۔ یہاں اس کی وضاحت ضروری ہے کہ وہ شخص بمبئی کے ڈونگری علاقے میں رہتا تھا اور محمود سروش باندرہ میں۔ یہ بھی واضح ہوجائے کہ باندرہ سے ڈونگری کا علاقہ کوئی دس کلو میٹر تو ہوگا ہی۔
ہم نے محمودسروش کی ذاتی لائبریری کا ذکر کیا ہے گھر کی دیواروں میں فرش سے لے کر چھت تک کتابیں ہی کتابیں تھیں ایک بار ہم گئے ہم نے اپنی ایک غزل سنائی اور یہ کہا کہ’’ اس غزل کے بارے میں زیب غوری کا کہنا ہے کہ اس کے مصرعے مختلف الوزن ہیں۔ سروش صاحب! آپ بتائیں کہ کیا زیب ؔصاحب کا کہنا صحیح ہے؟۔۔۔‘‘
اُنہوں نے پوری غزل سُنی اور پھر کہا :وہ تِپائی لیجیے اور اُس طرف کھڑے ہوجائیے ،ہم تپائی پر کھڑے ہوگئے ۔
اب کہنے لگے کہ اوپر سے تیسری صف میں دیکھو دائیں سے دسویں کتاب ہوگی۔ نکالو۔۔۔ ہم نے کتاب نکالی تو اُنہوں نے کتاب کا نام پوچھا۔ راقم نے کتاب کا نام پڑھ کر سنایا توکہنے لگے ا س کتاب کا 36واں صفحہ کھولو۔ وہ صفحہ کھولا ،تو کہا گیا اب آٹھویں سطرسے پڑھنا شروع کرو۔
المختصر پوری تقطیع تھی اُن سطروں میں۔ اس سے اندازہ اُن کی کتب بینی کا لگائیے اور مطالعے کے ہاضمے کااتہ پتہ بھی پائیے ۔
پڑھتے تو ہم بھی ہیں اور انہی کی نقل میں ہم نے بھی کتابیں جمع کر رکھی ہیں مگر وہ مطالعہ جس کا ذکر ابھی ہو اوہ ہم میں مفقود ہے۔ اُردو، فارسی اور انگریزی کا یہ مثالی عالِم جو عروض اور زبان دانی میں اپنی مثال آپ تھا ، جس کے زمانے میں مہاراشٹراُردو اکادیمی بھی قائم ہوچکی تھی مگر اسے نہ توکبھی اکادیمی مذکور کی رُکنیت کی پیش کش ہوئی اور نہ ہی کوئی اکادیمی ایوارڈ دِیا گیا۔ یہاں قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ ہم نے اسے کبھی کسی ایوارڈ وغیرہ کا طالب بھی نہیں پایا اور اس سے بڑی بات یہ تھی کہ علمی یا دانشوری کے زَعم سے دور بہت دور تھا وہ۔ اسے اس کا قطعاً احساس نہیں تھا کہ لوگ اسے دانشور یا شاعر اعظم سمجھیں ایک بار کسی تذکرے میں اُس کا ذکر نہیں تھا شاگرد جزبز ہوئے تو اْس نے فوراً سے پیشتر سب کو ڈانٹ دیا کہ
۔۔۔ ’’ لوگ سمجھیں گے کہ مَیں ہنگامہ کر وارہا ہوں اگر مجھ سے محبت کرتے ہوتو اس معاملے میں خموش رہو۔ ورنہ میرے طوطے سمجھے جاؤ گے۔
کیا تم نہیں جانتے کہ علم ایک نور ہے اور ظلمت، نور سے تعلق رکھنے والے کو کبھی اپنے حصار میں نہیں لے سکتی۔ علم اپنے آپ میں خود ایک اعزاز ہے، ایک ایوارڈ ہے۔ یہ جو ایوارڈز کی خبریں آرہی ہیں یہ خبر یں ہی ہیں ، یاد رکھو خبر باسی بھی ہوجاتی ہے مگر علم کبھی باسی نہیں ہوتا اور عزت علم ہی سے ملتی ہے۔‘‘
محمود سروش کے درج ذیل اشعار جو اُردو دُنیا میں زباں زدِ خاص وعام ہیں یہ اور بات کہ اکثر لوگوں کو، ان اشعار کے خالق کا نام نہیں پتہ:
اب مجھ سے کاروبار کی حالت نہ پوچھیے
آئینہ بیچتا ہوں مَیں اندھوں کے شہر میں
زمیں کا دِل بھی یقیناً کسی نے توڑا ہے
بلا سبب تو یہ چشمے اُبل نہیں سکتے
ویران کس قدر ہے یہ بازار اے سروشؔ!
شاید یہاں متاعِ ہنر بیچتے ہیں لوگ
اور یہ نعتیہ رُباعی بھی اِنہی محمود سروش کی فکر کا نتیجہ ہے:
اوروں کا شرف اُنؐ سے مِلایا، نہ ملا
اغیار میں ایسا کوئی آیا، نہ ملا
دُنیا نے بہت ڈھونڈا محمدؐ کا جواب
ثانی تو بڑی چیز ہے سایہ نہ ملا
سروش مرحوم کے ایک شاگردِ عزیز عثمان غنی عادلؔ نے آخری دِنوں میں اُن کا ایک شعری مجموعہ ’’متاعِ ہنر‘‘کے نام سے شائع کروادِیاتھا۔ دخترِسروش اور ہماری شبو آپا نے اپنے بابو کی رثائی شاعری پر مبنی ایک کتاب’ متاعِ زندگی‘ اپنے مصارف سے شائع کی۔
’متاعِ ہنر‘ کے ذکر پر ایک علمی واقعہ بھی یہاں درج ہوجائے کہ اس شعری مجموعے پر کچھ لکھنے کےلئے علی سردار جعفری سے عثمان غنی عادل نے گزارش کی اور مسودہ علی سردار جعفری کو دے آئے۔ جب عادلؔ مرحوم ، ایک دن جعفری کا مضمون لینے سیتا محل ؔپہنچے تو جعفری مرحوم نے اپنے مضمون کے ساتھ مسودہ بھی دیا اور کہا کہ عادل صاحب محمودسروش نے ایک مطلعے میں لفظ سِہَر(Sihar) اِستعمال کیا ہے ، یا تو مَیں اس لفظ کے معنیٰ سے نا آشنا ہوں یا پھر یہ لفظ غلط ہے۔
عادل مرحو م بہت بجھے بجھے سے ہمارے پاس آئے۔ ہوٹل میں لے گئے اور سارا ماجراکہہ سنایا۔ ہم بھی حیران کہ ایسا کیسے ممکن ہے کہ محمود سروش اور غلط لفظ کااستعمال۔۔۔!
عادل ؔمرحوم نےمسودے کی ایک غزل میں مطلع کی نشاندہی کی ، ہم نے اس کا پہلا مصرع پڑھا، اتفاق کہ مصرعے کا وہ اوّلین لفظ ہی تھا ، اب ہمیں بھی اطلاع ملی کہ’’ میاں ندؔیم! تم بھی اس لفظ سے بے خبر ہو۔‘‘
’سِہَرْ‘ اٹھتا ہے دِل پہلے پہل جب پیار پاتا ہے
بڑی دیر تک ہم دونوں حیران پریشان رہے ۔چائے پینے کے بعد جیسے کسی نے سوئی چبھوئی کہ ’’میاں ! ذرا دوسرا مصرع بھی تو دیکھو اورپڑھو کہ اس میں کیا کہا گیا ہے۔۔۔! ‘‘
دوسرا مصرع پڑھا تو پشیمانی کی کیفیت سے گزرنا پڑا کہ مصرعٔہ ثانی میں قافیے کی صورت، شاعر نے خود اس لفظ کے معنی بتا دِیے تھے۔ ہم نے جب عثمان غنی عادلؔ کو بتایا تو وہ اُچھل پڑے اور جیسے اُن کی دِلی مراد پوری ہوگئی ہو، فوراً ہوٹل کے بیرے کو بلا کر آرڈر دِیا کہ’’ میرے ندیمؔ کےلئے کوئی مٹھائی لاؤ۔ میں تو پہلے ہی سوچ رہا تھا کہ سرکار( سروش مرحوم کے شاگرد اسی لفظ سے اپنے اُستاد کو یاد کرتے تھے) اور غلط لفظ۔۔۔!! یہ کیوں کرممکن ہے۔۔۔؟‘‘۔۔۔
اس مطلع کاثانی مصرع یوں تھا:
سِکورہ بھیگ کر پانی میں جیسے سنسناتاہے
جو لوگ یوپی کے دیہات میں رہ چکے ہیں اُن میں اکثر اصحاب، ہندی کے اس لفظ ’سِہَر‘سے ضرور آشنا ہوںگے۔مِٹّی کے برتن میں جب پہلی بار پانی پڑتا ہے تو ایک آواز سَن کی سی آتی ہے اسی کیفیت کو ’سِہَر‘ کہتے ہیں۔
جعفری مرحوم بلرام پور کے رہنے والے تھے اور وہاں بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے۔
’’ سردار جعفری اس لفظ سے نا آشنا تھے ۔۔۔‘‘
یہ سوچ کر ہمیں حیرت رہی مگر کچھ دِنوں بعد جب یہ پتہ چلا کہ سردار جعفری دماغ کی کسی گمبھیر بیماری میں مبتلا ہیں اور اس عارضے نے اُن کی یادداشت کو بھی بُری طرح متاثر کیا ہے، تو سمجھ میں یہ بات آئی کہ جب وہ محمود سروش کا مسودہ دیکھ رہے تھے تو یہ عارضہ اُنھیں اپنی گرفت میں لے چکاتھا۔
محمود سروش ایک عَالِم اور اعلےٰ درجے کے شاعرو ادیب تو تھے ہی مگر ایک شفیق شخص بھی ان کے اندرون میں موجود تھا۔ ہمارے بزرگ ان کے ساتھ عزت وتکریم سے پیش آتے تھے ۔ یعنی ہم ان کے سامنے بہر حال خرد ہی تھے۔ ایک دن انجمن اسلام اسکول( نزد وِی ٹی ریلوے اسٹیشن) کے باہر مل گئے۔ ہم نے سلام کیا اُنہوں نے گھر کے لوگوں کی خیریت وغیرہ دریافت کی۔ بعدہٗ ہم نے عرض کیا ، سروش صاحب! چائے پی جائے۔۔۔۔۔ اُنہوں نے کہا:’’ ہاں ہاں‘‘
اُس زمانے میں اِس اسکول کے آس پاس کوئی ریسٹورنٹ یا ہوٹل وغیرہ نہیں تھا یا تو کِپیٹل سنیما یا پھر اب جہاں نیا حج ہاؤس ہے، وہاں (انجمن سے)قدرے فاصلے پر ایک ہوٹل تھا( اب بھی ہے) اس ہوٹل میں جاکرچائے پی گئی ہم چائے پی کر جلدی سے بِل کی ادائیگی کیلئےہوٹل کے کاؤنٹر کی طرف بڑھے تو پیچھے سے اُتنی ہی سرعت کے ساتھ سروش صاحب آئے اور کہنے لگے:’’ ندیم ؔمیاں! کیا اِتنے بڑے ہوگئے ہو ؟ ‘‘
ہم اُن کے اِس جملے پر خجل ہو کر رہ گئے۔۔ ۔ !
اس واقعے کو کوئی چالیس برس سے زائد مد ت گزر ر ہی ہے ، یقیناً آج ہماری عمر تو ضرور بڑھی مگر سچ یہ ہے کہ ہم اب تک سروش صاحب کے اُس جملے کو بھول سکے اور نہ بڑے ہو سکے۔**

















