ممبئی11۔ اپریل(ندیم صدیقی) ممتاز اسلامک اسکالر، تعلیمی شعبے میں گراں قدر خدمات کے حامل اور معروف شاعر و ادیب (85 سالہ) ڈاکٹرعابد اللہ الانصاری آج شکاگو میں انتقال کرگئے۔
سہارن پور کے قصبے’ اَمبِہٹہ‘
(AMBEHTA)
سے وطنی نسبت رکھنے والے ڈاکٹرعابد اللہ الانصاری 6جولائی 1936 کوپیدا ہوئے تھے۔ اُردو کے مشہور شاعر و صحافی مولانا حامد الانصاری غازی کے فرزندِ اکبر عابد اللہ غازی اِبنائے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، میں اپنا ایک ممتاز تشخص رکھتے تھے۔
ڈاکٹر عابد اللہ غازی نے 1951 ع میں جب ہائی اسکول پاس کیا تو ایک عجب سرشاری اور مسرت کی کیفیت انہوں نےبیان کی ہے :
’’میں دوڑ کر خالو جان اور بہنوں سے لپٹ گیا۔۔۔ دوپہر میں قیلولہ کے لیے لیٹا کئی بار چار پائی سمیت فضا میں لہرانے لگا۔ چند سال پہلے تک جس کامیابی کا تصور بھی نہیں کیا تھا وہ میرے قدموں میں تھی اور جن امکانات کی خواہش بھی محال تھی وہ (امکانات) اب تمنا کا دوسرا قدم بن گئے تھے۔‘‘
اُس دور کے شداید میں کسی بچّے کاہائی اسکول پاس کرلینا یقیناً اتنا ہی مسرت انگیز ہوتا تھا عابد مرحوم ہی نے لکھا ہے کہ’’ مَیں نے ایسی خوشیوں پر والدین تو کیا خاندانوں کو جشن برپا کرتے دیکھا تھا۔‘‘
جس زمانےمیں عابد اللہ غازی اپنا کرئیر بنانے میں کوشاں تھے اُس دور میں، مذہبی خاندانوں میں انگریزی ایک لعنت سمجھی جاتی تھی اور اس کے برعکس جس نے انگریزی پڑھ لی وہ عجب مسرت اور افتخار کی نگاہ سے بھی دیکھا جاتا تھا۔ عابد اللہ غازی کی ہائی اسکول میں امتیازی کامیابی پورے قصبے’ امبہٹہ‘ کے لیے ایک اعزاز بن گئی تھی ،قصبے کا ہر شخص فخر محسوس کر رہا تھا۔
ایک واقعہ غازی مرحوم نے لکھا ہے جس سے اُس دَور کی کیسی تصویر سامنے آتی ہے:
’’۔۔۔ سب سے زیادہ خوشی کا اظہار ہماری بستی کے معروف قصائی المعروف بہ گھوڑا نے کیا: میاں صدقے جاؤں بس اتنی پڑھائی بہت ہے، اللہ میاں تمہیں قانون لگوا دے، تم پنڈت نہرو سے کہہ کر ہماری دُکان دِلّی میں کُھلوا دینا۔‘‘
عابد اللہ غازی انگریزی پڑھے لکھے ہونے کے باوصف اُس وقت اپنے خاندان میں اوّل نوجوان تھے جو یقیناً غازی خاندان کے لیے ایک مستحسن واقعہ بن گیا تھا۔
ان کے بزرگ جن کے نزدیک’’ انگریزی تعلیم دماغ کا فتور اور دل کے زہر۔۔۔‘‘ کے مصداق تھی مگر اس کے برعکس اُس وقت عابد اللہ غازی علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں تعلیم کے خواب دیکھ رہے تھے جس کا اظہار انہوں نے اپنے والد ِ محترم حامد الانصاری غازی کے نام خط میں کر دِیا تھا۔
ان کے والد کی دور اندیشی، زمانہ شناسی، وقت کے تقاضے اور بیٹے کی خواہش نے یہ رنگ دِکھا یا 🙁 والد کے لفظوں میں)’’ تمہاری خواہش علی گڑھ جانے کی ، علی گڑھ سے ہمارے اُس علمی اور خاندانی تعلق کو دوبارہ قائم کرنے کی کوشش ہے جو ہمارے دادا مولانا عبد اللہ انصاری نے سر سیّد تحریک اور علی گڑھ سے قائم کیا تھا۔‘‘
عابد اللہ غازی اس طرح علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں داخل ہوئے۔ انہوں نے سیاسیات میں ایم اے کیا اور ہارورڈ یونی ورسٹی سےپی ایچ ڈی بھی کی۔ امریکہ میں رہتے ہوئے انہوں نے اُن مسلم خاندانوں کے بچوں کے لیے جو ایک مدت سے مغرب میں پیدا ہوئے اور وہیں رہ رہے ہیں ، جن پر وہاں کا کلچر اور ان کے دیگر عوامل اثر انداز ہورہے ہیں غازی نے اسلامی لٹریچر پر مبنی سَو سے زاید ایسی نصابی کتابیں مرتب کیں جو ایک طرح سے فی زمانہ دعوتی تقاضے اور نئی مسلم نسل کی ضرورت تھیں۔اس کام میں ان کی نصف بہتر محترمہ ڈاکٹر تسنیمہ غازی کا کردار بھی اساسی نوعیت کا حامل ہے۔’اقرا اِنٹر نیشنل‘ کے نام سے اُن کا ادارہ اس ضمن میں خاصا معروف ہی نہیں بلکہ مثالی طور پر نہایت متحرک ہے۔ ان کی یہ تحریک ایک طرح سے عالمی نوعیت کی حامل ہے۔ ان کا مرتب کردہ اسلامی نصاب چالیس ممالک میں پڑھایا جا رہا ہے۔ عابدی کے بقول وہاں کا ماحول بالعموم مذہب ، افکار اور روایات کے خلاف ہے اس اعتبار سے مذہب پر عمل کا چیلنج صرف مسلمانوں کے لیے نہیں تمام مذاہب کے لیے ہے۔
عابد اللہ غازی سے راقم کو ذاتی نیاز بھی حاصل رہا ہے،یاد آتا ہے کہ کوئی دس پندرہ برس قبل جب وہ ممبئی آئے تھے تو احقر نے اخبار کے لیے اُن سے ایک تفصیلی گفتگو کی تھی وہ انٹروِیو شہر کے ایک معاصر میں شائع ہو ا تھا جس میں اُن سے مِلّی مسائل پر سوال جواب ہوا تھا۔ چونکہ ا نکی عملی زندگی امریکہ ہی میں گزری ہے، ہم نے اُن سے پوچھا تھا کہ’’ امریکہ کے مسلمان اور یہاں کے مسلمانوں میں آپ کیا فرق محسوس کرتے ہیں؟‘‘
مرحوم نے جواباً کہا تھا کہ
’’ ہندوستان میں بارہ صدیوں میں ہنود سے اختلاط کے نتیجے میں اسلامی تہذیب کی نشو و نما ہوئی ہے جس کی اپنی خصوصیات ہیں۔ علامہ اقبال نے کہا تھا:
عطا مومن کو پھر درگاہ حق سے ہونے والا ہے
شکوہِ ترکمانی، ذہنِ ہندی، نطق ِ اعرابی
اس کے برخلاف امریکہ کی جدید تاریخ سفید فام اقوام کی استعماریت سے شروع ہوتی ہے جو بہ مشکل دو ڈھائی سو سال پرانی ہے۔اس میں اسلام اور مسلمانوں کا ( کوئی)خاص حصہ نہیں بلکہ 1950ء کے زمانے سے اسلام نے اپنی بنیادیں جمائی ہیںاور اب 70سے 80لاکھ آبادی ہے جس نے ایک جماعت کی حیثیت اختیار کر لی ہے جس میں امریکی تہذیبی عناصر اور مختلف مدارس ِفکر اورمذہبِ فقہ جمع ہو کر ایک نئی کمیونٹی (قوم)کی تشکیل کر رہے ہیں۔جس کے خدو خال ابھی بہت واضح نہیں ہیں۔ہمارے لئے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ ہم اپنے عقیدے اور تشخّص کو باقی رکھتے ہوئے کس طرح امریکہ کے
Melting Pot
کا حصہ بن سکتے ہیں۔‘‘
اسی انٹروِیو میں انہوں نے امریکہ میں اسلام کے تعلق سے کیا امکانات ہیں؟ جیسے سوال پر ہمیں بتایا تھا کہ’’ امریکہ میں مذہبی خیال کے اظہار اور تبلیغ کی آزادی ہے۔ بہت سی مسلم تنظیمیں اور مساجد اپنی اجتماعیت کو باقی رکھنے اور دوسروں تک اسلام کی تعلیمات پہنچانے کے لیے کوشاں ہیں۔ بلکہ بعض مرتبہ چرچ اور یہودیوں کی عبادت گاہ’ سنے گاگ‘ بھی مسلمانوں کو دعوت دے کر بلاتے ہیں تاکہ و ہ اسلامی تعلیمات کی تشریح کریں اور صحیح تناظر میں (اسلام کو) پیش کریں ۔ کثیر تعداد میں مسلمانوں کے، اُردو اور انگریزی میں رسالے اور اخبار شائع ہو رہے ہیں۔تبلیغی جماعت بھی کام کر رہی ہے لیکن کوئی بھی جماعت عیسائیوں کی طرح منظم انداز میں تبلیغ کا کام نہیں کر رہی ہے۔ ‘‘
عابد اللہ غازی کی سرشت میں شعر و ادب کا ہونا عجب نہیں وہ تو خون میں شامل تھا ان کی کئی کتابیں شائع ہو چکی ہیں جن میں’’جہد ِمسلسل‘‘ کے نام سے ایک طرح کی آپ بیتی یا سوانحی کتاب بھی منظر عام پر آچکی ہے۔ اس تحریر میں کئی باتیں اسی کتاب سے اخذ کی گئی ہیں۔
عابد مرحوم اس لحاظ سے بھی ایک ممتاز ہندوستانی اسکالر تھے کہ ان کی علمی و تعلیمی اور ادبی خدمات کے اعتراف میں حکومت ِ پاکستان نے انھیں اپنے ملک کے اہم ایوارڈز پیش کیے جو’ ستارہ ٔامتیاز‘ اور نشانِ امتیاز‘ سے موسوم ہیں۔
ڈاکٹر عابد اللہ غازی نے علمی اور عملی پس منظرمیں ایک بھرپور زندگی گزاری جو دوسروں کےلیے ایک مثالی درس سے کم نہیں۔
**